Top Rated Posts ....

Irfan Siddique reveals eyewitness details of "Dawn Leaks" story in Nawaz Sharif's tenure

Posted By: Muzaffar, April 18, 2023 | 20:01:10


Irfan Siddique reveals eyewitness details of "Dawn Leaks" story in Nawaz Sharif's tenure



ڈان لیکس ۔۔۔ عرفاق صدیقی

اکتوبر 2016ء کی اٹھائیس تاریخ تھی۔ زمستانی ہوائیں شہرِخوش جمال کا رُخ کر رہی تھیں۔ مجھے پیغام ملا کہ وزیراعظم یاد کر رہے ہیں۔ کوئی پانچ سات منٹ میں وزیراعظم ہائوس پہنچ کر اپنی آمد کی اطلاع دی اور پرنسپل سیکرٹری‘ فواد کے کمرے میں جا بیٹھا۔ بلاوے کا انتظار تھا کہ وزیراعظم نواز شریف خود اُس کمرے میں آگئے اور اُسی صوفے کے ایک کونے میں بیٹھ گئے جس پر میں بیٹھا تھا۔ سلام دعا کے بعد فواد سے کہنے لگے... ''فواد تم نے صدیقی صاحب کو بریف کردیا ہے؟‘‘ فواد بولا... ''بس سرسری سی بات ہوئی ہے سر‘‘۔ وزیراعظم کا چہرہ خزاں رنگ ہورہا تھا۔ کسی تمہید کے بغیر کہنے لگے ... ''آپ ڈان کی خبر سے تو آگاہ ہیں جسے 'ڈان لیکس‘ کے نام سے ایک بڑا سکینڈل بنا دیا گیا ہے۔ میں نے کافی باتیں آپ سے شیئر کی ہیں۔ اب مجھے ایک نہایت ہی ناخوشگوار کام پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اُن لوگوں کا اصرار ہے کہ پرویز رشید کو فارغ کر دیا جائے‘‘۔ وزیراعظم کے چہرے کی پت جھڑ پر گہرے کرب کی سنولاہٹ غالب آگئی۔ بولے... ''آپ جانتے ہیں کہ میں پرویز کی کتنی عزت کرتا ہوں۔ پہلے اسی طرح کے کھیل تماشے میں مشاہد اللہ کو نکلوایا گیا۔ اب پرویز رشید کا خون مانگتے ہیں۔ میں اس صورتحال پر بہت پریشان ہوں۔ ابھی ایک چھوٹی سی میٹنگ ہے۔ میں اُس سے فارغ ہوکر آپ سے پھر ملتا ہوں۔ اس دوران فواد آپ کو بریف کرتا ہے‘‘۔

فواد کی بریفنگ میں اس کے سوا چونکا دینے والی کوئی بات نہ تھی کہ پرویز رشید کو ٹارگٹ کیا جا چکا ہے اور ''وہ لوگ‘‘ تُلے بیٹھے ہیں۔ کوئی پون گھنٹے بعد وزیراعظم آگئے۔ اے ڈی سی سے کہہ دیا کہ کوئی یہاں نہ آئے۔ فواد نے اپنی رپورٹ دی۔ میاں صاحب کہنے لگے ... ''آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ بتائیں کیا کیا جائے؟‘‘ میں نے کہا ... ''پرائم منسٹر! بہت افسوس کی بات ہے کہ آپ سے پرویز رشید کی قربانی مانگی جا رہی ہے۔ آپ اشارہ بھی کریں گے تو وہ استعفے میں لمحہ بھر کی دیر بھی نہیں کرے گا لیکن یہ سلسلہ کہاں جا کے رُکے گا؟ تاہم اگر ضمانت دی جا رہی ہے کہ اس کے بعد یہ باب بند ہو جائے گا تو فساد رفع کرنے کے لیے آپ وقتی طور پر یہ کڑوا گھونٹ پی لیں‘‘۔ میاں صاحب کے لہجے کی شکستگی میں تلخی کی کڑواہٹ بھی گُھلنے لگی تھی۔ ''لیکن صدیقی صاحب یہ کوئی حل تو نہیں نا۔ ہم کب تک اس طرح کے ناجائز اور بے تُکے مطالبات کے سامنے سر جھکاتے رہیں گے؟ میں کس طرح پرویز رشید جیسے شخص کو سامنے بٹھا کر کہوں کہ استعفیٰ دو؟ کیا وزیر اطلاعات کا کام خبریں رکوانا ہے؟ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ پرویز رشید اس معاملے میں ملوث نہیں۔ ملوث کیا ہونا‘ یہ سرے سے کوئی معاملہ ہی نہیں۔ اگر میں کسی کو ایکسٹینشن نہیں دے رہا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے قریبی ساتھیوں کے چہروں پر کالک تھوپ دی جائے؟ یہ پرویز رشید نہیں‘ میری توہین ہے۔ نواز شریف کی نہیں وزیراعظم کی توہین ہے‘‘۔ میرے پاس زخم خوردہ وزیراعظم کے لیے کوئی حرفِ تسلّی نہ تھا۔ کارگاہِ سیاست کا ایک اور حیا باختہ باب وا ہو رہا تھا۔ پاناما کا الائو بھڑکانے والوں کو منوں تیل میسر آ گیا تھا۔

اگلے دن‘ پرویز رشید کو پیغام ملا کہ وزیراعظم ایک فوری میٹنگ کے لیے بلا رہے ہیں۔ آتے ہی اُنہیں وزیراعظم کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ اسحاق ڈار‘ چودھری نثار علی خان اور فواد پہلے سے موجود تھے۔ شہباز صاحب کو بھی آنا تھا لیکن نہ آ پائے۔ بارہ چودہ منٹ گزر گئے لیکن خلافِ معمول وزیراعظم بھی نہ آئے۔ اچانک دروازہ کھلا۔ مریم نواز چادر سی لپیٹے کمرے میں داخل ہوئی۔ اُس کی آنکھیں نم آلود تھیں۔ روایتی احترام اور قرینے کے ساتھ سب کو سلام کیا۔ پرویز سے ملی اور کھڑے کھڑے بولی ...''انکل مجھے اَبّو نے بھیجا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ سے آنکھیں نہیں ملا سکتا‘‘۔ ٹشو سے آنسو پونچھتے ہوئے وہ ایک کرسی پہ بیٹھ گئی۔ بوجھل ماحول کا سکوت توڑتے ہوئے چودھری نثار نے تمہیدی گفتگو کا آغاز کیا۔ چند جملے ہی بولے تھے کہ پرویز کہنے لگا ... ''چودھری صاحب! تاریخ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا بتا دیں کہ میں نے استعفیٰ دینا ہے یا مجھے برطرف کیا جانا ہے؟‘‘ اس پر سناٹا چھا گیا۔ پرویز‘ مریم سے مخاطب ہوا ... ''بیٹا ! ابّو کو جا کر بتا دو۔ مجھے اُن کے جذبات کا اندازہ ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے‘ مجھے اُس کے اسباب کا بھی پتا ہے اور کرداروں کا بھی۔ میرے استعفے سے میاں صاحب کی مشکلات کم ہوتی ہیں تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔ وہ میرے حوالے سے ہرگز پریشان نہ ہوں‘‘۔ استعفیٰ یا برطرفی کے سوال کا کوئی جواب نہ آیا؛ البتہ چودھری صاحب نے کہا ''فی الحال ہم یہ خبر بریک کردیتے ہیں۔ کل میں پریس کانفرنس میں تفصیل بتا دوں گا‘‘۔

پرویز رشید اپنے استعفے کے مضمون پر غور کرتا دفتر پہنچا۔ کاغذ قلم لے کر بیٹھا۔ وہ لفظوں سے زیادہ عمل پر یقین رکھتا ہے۔ سیدھے سادے دو تین جملے ہی تو لکھنا تھے۔ غیر شعوری طور پر اُس نے ٹی وی آن کیا۔ بریکنگ نیوز چنگھاڑ رہی تھی۔ ''پرویز رشید کی برطرفی کا فیصلہ کر لیا گیا۔ شام کو وزیراعظم ہائوس سے باضابطہ بیان جاری ہوگا‘‘۔ پرویز رشید نے قلم وہیں چھوڑا۔ حسب ِعادت نائب قاصد سے مانگ کر ایک سگریٹ سلگایا۔ کم و بیش اپنی عمر جتنا سال خوردہ چَرمی بیگ اٹھایا اور گھر چلا گیا۔ خنک شام شہرِ سفّاک پر اُتر رہی تھی تو فرمان بھی جاری ہوگیا۔ ''اب تک کے شواہد کی رُو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اطلاعات سے کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔ لہٰذا اُنہیں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کے لیے کہہ دیا گیا ہے‘‘۔

پرویز کا لہو پی کر بھی شیش ناگ کو تسکین نہ ہوئی۔ اُس کی پھنکار پہلے سے بھی زیادہ خونخوار ہو گئی۔ بلاشبہ پرویز رشید ایک مشکل شکار تھا۔ نواز شریف نے صرف 'دفعِ شر‘ کے لیے اپنی زندگی کے تلخ ترین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کیا لیکن 'عمران پروجیکٹ‘ کے منصوبہ کاروں نے فاتحانہ تمکنت کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ عمران خان کو اشارہ ہوا۔ اُس نے نتھیا گلی سے اعلان کیا کہ میں اسلام آباد کا محاصرہ کرنے آرہا ہوں۔ نومبر لپکا چلا آرہا تھا اور توسیع کی تمنا بے کل ہوئے جا رہی تھی۔ ''ڈان لیکس‘‘ اور ''پاناما لیکس‘‘ گرم جوش سہیلیوں کی طرح بانہوں میں بانہیں ڈالے‘ توسیع کی بارگاہِ ناز میں جھومر ڈالنے لگیں۔

طرفہ تماشا یہ تھا کہ نام نہاد ڈان لیکس پر سات رُکنی تحقیقاتی کمیٹی اُس وقت بنی جب پرویز رشید کی برطرفی کو نو دن اور ڈان لیکس نامی شوخ چشم حسینہ کو اپنی چھب دکھائے ایک ماہ ہو چلا تھا۔ جسٹس (ر) عامر رضا خان اس کے سربراہ تھے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز‘ پنجاب کے محتسب اعلیٰ نجم سعید‘ ڈائریکٹر ایف آئی اے عثمان انور‘ انٹیلی جنس بیورو کے ایک نمائندے کے علاوہ ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر کامران خورشید اور آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر نعمان سعید بھی اس عزت مآب کمیٹی کے رکن تھے۔ حسنِ کارکردگی کے باعث یہی دو بریگیڈیئر صاحبان‘ پاناما کی شہرۂ آفاق جے آئی ٹی کا حصہ بھی بنے اور وہاں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ کمیٹی کو ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرنا تھی لیکن وزیراعظم کو مبتلائے اذیت رکھنے کے لیے وہ کچھوے کی چال چلتی رہی۔ راحیل شریف تو 29نومبر کو اپنی ناآسودہ حسرتوں کی راکھ‘ دفتر کے لان میں دفن کرکے گھر چلے گئے لیکن اُن کی ''متروکہ املاک‘‘ سرگرم رہیں اور اس کمیٹی کو بھی مادرِ مشفق کی طرح آغوش میں لے لیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمان سنبھالی لیکن موسم نے کوئی نمایاں کروٹ نہ لی۔

جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری میں میرا بھی خاصا سرگرم کردار رہا تھا جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔ میں اکثر مضطرب رہتا تھا کہ اگر صورتحال جنرل راحیل شریف جیسی ہی رہی تو وزیراعظم کیا سوچیں گے؟ ان دنوں تو نہیں لیکن اب وہ اکثر شگفتگی میں لپٹی لطیف سی چُٹکی ضرور لے لیتے ہیں اور میں بے دلیل سا ہوکر رہ جاتا ہوں۔

اسی نفسیاتی خلجان کے زیر اثر میں نے 21 مارچ 2016ء کو جنرل باجوہ کے سٹاف آفیسر کو پیغام بھیجا کہ مجھے چیف سے ملنا ہے۔ فوراً ہی اگلے دن شام 6 بجے کا وقت طے ہوگیا۔ 22مارچ کی اس طویل ملاقات کا کوئی قابلِ ذکر حاصل نہ تھا۔ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ ''سر اب تو کمیٹی میں سب کچھ طے پا گیا ہے۔ میں ہرگز وزیراعظم کو پریشان نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ معاملہ تو مجھے ورثے میں ملا ہے۔ جس دن پرویز رشید کو فارغ کیاگیا‘ اُسی دن یہ مسئلہ ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ مجھے تو یہ بتایا گیا ہے کہ کمیٹی بنانے اور معاملہ انجام تک پہچانے پر اصرار چودھری نثار علی نے کیا تھا‘‘۔ آج کم و بیش سات برس بعد جنرل باجوہ نے یہی بات صحافی شاہد میتلا کو بتائی ہے کہ ''چودھری نثار نے کہا تھا کہ ہمیں ڈان لیکس کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے‘‘۔ میں نے ملاقات کی تفصیل وزیراعظم کو سنائی تو وہ خفگی اور آزردگی سے بوجھل لہجے میں بولے ''دیکھیں صدیقی صاحب! یہ حال ہے وزیراعظم کا جو آئین کے تحت ملک کا چیف ایگزیکٹو کہلاتا ہے لیکن اپنی مرضی کی کابینہ بھی نہیں بنا سکتا۔ ہم جانے کیا کیا کچھ برداشت کرتے رہتے ہیں۔ ایک اخباری خبر جو نہ جانے کہاں سے آئی‘ حکومت کے خلاف چارج شیٹ بنادی گئی ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ وزارتِ عظمیٰ ایک طرح کی نوکری بن کر رہ گئی ہے۔ سر جھکا کر ہر جائز و ناجائز مانتے رہو تو ٹھیک ورنہ رائی کا پہاڑ بنا کر وزیراعظم کو کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے۔

کوئی پونے چھ ماہ بعد کمیٹی نے سفارشات پیش کردیں۔ 29 اپریل کو ایک اعلامیہ میڈیا کی زینت بنا کہ ''وزیراعظم نے رپورٹ کے پیراگراف 8 کی تمام سفارشات منظور کر لی ہیں۔ ظفر عباس‘ ڈان اخبار اور سرِل المیڈا کا معاملہ اے پی این ایس کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ طارق فاطمی کو منصب سے ہٹایا جا رہا ہے۔ رائو تحسین کے خلاف انضباطی کارروائی ہوگی‘‘۔ کچھ ہی دیر بعد آئی ایس پی آر کا ایک ٹویٹ آیا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ ''سرکاری اعلامیہ نامکمل ہے اور انکوائری بورڈ کی سفارشات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سو نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے۔ ''Notification is Rejected‘‘۔ سخت مزاج باپ کی گھن گرج رکھنے والے اس اعلامیے کے سامنے وزیراعظم ہائوس کا اعلامیہ معصوم بچے کی طرح میڈیا کے ایک کونے میں دبک گیا۔

نفسیاتی خلجان ہی کے زیر اثر میں نے فیصلہ کیا کہ فوری طور پر آرمی چیف سے مل کر اس آگ کو ٹھنڈا کیا جائے۔ وزیراعظم کسی سیاسی جلسے کے لیے اوکاڑہ میں تھے۔ بصد مشکل اُن سے رابطہ ہوا۔ سٹاف آفیسر نبیل اعوان کے ذریعے پیغام آیا کہ ''آپ جو مناسب سمجھتے ہیں‘ کریں‘‘۔ آنکھ کے تازہ تازہ آپریشن کے باوجود میں بھاگم بھاگ آرمی چیف کے سسر میجر جنرل (ر) اعجاز امجد کے گھر پہنچا۔ وہ خود بھی اس صورتحال پر خاصے پریشان تھے۔ وہیں سے جنرل باجوہ کے سٹاف افسر کو پیغام دیا کہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ وہ لاہور سے واپسی کے سفر پہ تھے۔ ہم چائے پی رہے تھے کہ ملازم نے جنرل صاحب کے کان میں سرگوشی کی۔ وہ اٹھے اور معذرت کرتے ہوئے کہنے لگے ''ایک ضروری مہمان ہے۔ میں بس ابھی آیا پانچ منٹ میں‘‘۔ وہ واقعی جلد پلٹ آئے۔ ان کے ساتھ سول کپڑوں میں فوجی ڈیل ڈول رکھنے والا مستعد اور سجیلا مردِ رعنا بھی تھا۔ اس نے مجھے سیلوٹ کیا۔ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ جنرل اعجاز بولے ''قمر کی طرح یہ بھی آپ کا شاگرد ہے‘‘۔ مردِ رعنا بولا ''سر میں سیّد عاصم منیر ہوں‘‘۔ جنرل اعجاز نے لقمہ دیا ''جنرل سیّد عاصم منیر۔ ڈی جی ایم آئی‘‘۔ پل بھر میں عاصم کی نوعمر تصویروں اور اپنے دوست سیّد منیر شاہ کی یادوں کا نگار خانہ سا کھل گیا۔ عاصم جلدی میں تھا۔ کھڑے کھڑے رخصت ہو گیا۔ کوئی آدھ پون گھنٹہ گزرا ہوگا کہ آرمی چیف کا سٹاف آفیسر آ گیا۔ ''سر چیف انتظار کررہے ہیں‘‘۔ جنرل (ر) اعجاز امجد کے انکار کے باوجود میں نے اپنی کمک کے لیے اصرار کرکے انہیں ہمراہ لیا۔ تین چار منٹ بعد ہی وہ مجھے ڈرائنگ روم میں تنہا چھوڑ کر اندر چلے گئے۔ دروازہ کھلا۔ نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس جنرل باجوہ کمرے میں داخل ہوئے۔ چہرہ سپاٹ تھا اور بدن بولی کے انگ انگ سے اشتعال کو چھوتا اضطراب ٹپک رہا تھا۔ میں پچھلے کئی گھنٹوں سے اس ادھیڑ بُن میں تھا کہ گفتگو کا آغاز کیسے کروں گا! ''ریجیکٹڈ‘‘ جیسے انتہائی کرخت‘ ناتراشیدہ اور مذمت کی حدوں کو چھوتے عسکری ردّعمل پر وزیراعظم کے متوقع ردعمل کی ترجمانی کے لیے اپنے مکالمے کو کس طرح مؤثر بناؤں گا؟ عین ممکن ہے کہ جنرل باجوہ کہہ دیں کہ یہ سب کچھ ان کی منظوری کے بغیر ہوا ہے۔ لیکن آرمی چیف نے آنِ واحد میں مجھے ان سارے خرخشوں سے آزاد کردیا۔ رسمی سلام دعا کے بعد میرے سامنے بچھی کرسی سنبھالی اور عسکری جلال کے بارود پاش لہجے میں بولے؛

"Sir I have been stabbed in the back... I have been cheated... I am badly hurt."

(سر میری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیاگیا ہے۔ مجھے دھوکا دیاگیا ہے۔مجھے شدید صدمہ پہنچا ہے )۔

مجھے اس اعزازِ بلند کی خبر خود جنرل قمر جاوید باجوہ نے دی تھی کہ ستّر کی دہائی میں وہ راولپنڈی کے سرسیّد سکول میں میرے شاگرد رہے ہیں۔ راول لائونج میں ہونے والی اس اتفاقیہ ملاقات میں میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ بھی موجود تھے۔ یہ 2014ء کا ذکر ہے جب لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ راولپنڈی کی ٹین کور کے کمانڈر تھے اوراب کوئی تین سال بعد‘ 29 اپریل 2017ء کی اُس سوختہ بخت شام‘ آرمی ہائوس کے ڈرائنگ روم میں اُستاد ایک صوفے پرسکڑا سمٹا بیٹھا تھا اور کمرہ شاگرد کی استادانہ گھن گرج سے گونج رہا تھا۔

''سَر میری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیاگیا ہے۔ مجھے دھوکا دیاگیا ہے۔ مجھے سخت صدمہ پہنچا ہے۔ مجھے شدید مشکل میں ڈال دیاگیا ہے۔ اب میں کس طرح سامنا کروں اپنے لوگوں کا؟ جب سب کچھ طے پاگیا تھا تو پھر ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس نوٹیفکیشن سے فوجی قیادت میں سخت بے چینی پھیل گئی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میرے آنے سے پہلے معاملات کتنے خراب تھے۔ میں نے سول ملٹری تعلقات بہتر بنانے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا؟ لیکن سَر فوج ایک بہت ڈسپلنڈ ادارہ ہے۔ اس ادارے کی ایک سوچ ہے۔ اپنے ادارے کی عزت کا تحفظ میری ذمہ داری ہے۔ اگر مجھے اس طرح 'چیٹ‘ کیاجائے گا تو میں اپنے لوگوں کو کیسے مطمئن کروں گا؟ فوج کی پوری لیڈرشپ جانتی ہے کہ کیا طے پایاتھا اور حکومت نے کس طرح اس کے برعکس اعلان جاری کردیا ہے۔ اس کا ردِعمل توآنا ہی تھا۔ سر اس طرح نہیں چل سکتے یہ معاملات...‘‘۔

مجھے اندازہ نہ تھا کہ ''دستاویزِ شکست‘‘ پر دستخط کر دینے کے بعد‘ ایک نپا تلا سرکاری بیان اوجڑی کیمپ کا بارُود خانہ بنادیا گیا ہے۔ جنرل اعجاز امجد جانے کہاں رہ گئے تھے اور میں آتش زیرپا جرنیل کی بارُودپاشی کے سامنے چاندماری کا ٹیلہ بنابیٹھا تھا۔

خاصی دیر بعد جنرل باجوہ نے چائے کی پیالی اٹھائی تو گولہ باری میں لمحہ بھر وقفے کو غنیمت جان کرمیں نے بڑی ملائمت سے کہا ''اب میں بول سکتا ہوں یا آپ نے مزید کچھ کہنا ہے ؟‘‘

جنرل باجوہ بولے ''جی جی سَر ضرور۔ بس میں نے کھل کر ساری باتیں کہہ دی ہیں۔ آپ سے میرا احترام کا رشتہ ہے۔ آپ کی جگہ کوئی اور حکومتی وزیرمشیر ملنا چاہتا تو کم ازکم آج ہر گز نہ ملتا‘‘۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا :کیا آپ بتائیں گے کہ انکوائری کمیٹی کی کون سی سفارش پر عمل نہیں ہوا؟ جنرل باجوہ کہنے لگے ''دیکھیں سَر ! انکوائری کمیٹی کی سفارش تھی کہ پرویز رشید کو فارغ کیے جانے کی توثیق کی جائے گی۔ اس اعلامیے میں کوئی ذکر نہیں۔ کمیٹی نے فاطمی کے بارے میں کہا ہے کہ اُسے Removeکیاجائے‘ اعلامیے میں Denotify کا لفظ استعمال کیاگیا ہے پھر نوٹیفکیشن کو کیوں میڈیا پر اچھالا گیا...‘‘۔

مجھے یہ باور کرانے میں خاصا وقت لگا کہ حکومتی اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے انکوائری رپورٹ کے پیراگراف اٹھارہ کی منظوری دے دی ہے جس میں چار سفارشات کی گئی تھیں:
1۔ پرویزرشید کو وزارت سے ہٹا دیاجائے۔
2۔ طارق فاطمی کو منصب سے فارغ کردیاجائے۔
3۔ ظفرعباس‘ سرل المیڈا اور ڈان کا معاملہ اے پی این ایس کے حوالے کردیاجائے۔
4۔ رائو تحسین کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے۔

آپ بتائیے ان میں سے کون سی سفارش نہیں مانی گئی ؟ ممکن ہے زبان وبیان کا کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ ہو یا کوئی تکنیکی موشگافی‘ لیکن کیا یہ کوئی ایسا فوج مخالف باغیانہ بیانیہ تھا کہ آپ نے آئو دیکھا نہ تائو اور 'Rejected‘ کا میزائل داغ دیا؟ میں نے جنرل صاحب کے اشکالات کی گرہ کشائی کی۔ کچھ ہی دیر بعد مکالمہ ہموار راستے پر آگیا۔ میں ایک ہاتھ میں کتاب اور دوسرے میں چاک کی ڈلی پکڑ کر اُستاد کے روپ میں آگیا اور بولا ''دیکھیں جنرل صاحب! آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو آپ کی مشکلات کا احساس ہونا چاہیے لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ کچھ مشکلات اور مجبوریاں وزیراعظم کی بھی ہو سکتی ہیں؟ آپ نے کبھی اس زاویے سے دیکھا کہ وزیراعظم کے سیاسی رفقا اُس کے کور کمانڈر ہیں؟ آپ کو کچھ لوگوں سے شکایت پیدا ہوئی۔ آپ نے اُنہیں فارغ کرا دیا۔ وزیراعظم کو بھی تو کچھ لوگوں سے شکایات ہیں۔ تحفظات ہیں۔ کیا آپ وزیراعظم کے کہنے پر وہ کچھ کریں گے جو آپ کے کہنے پر اُس نے کیا ؟ کیا آپ ''ریجیکٹڈ‘‘ کا توہین آمیز ٹویٹ کرنے والے جرنیل کو نکالیں گے؟‘‘

رات گزری جارہی تھی۔ کھانا لگنے کا اعلان ہوا۔ اچانک جنرل اعجاز داخل ہوئے۔ بولے ''میں نے سوچا آپ دونوں کو ایک دوسرے سے کھل کر بات کرنے کا موقع دیا جائے‘‘۔

کھانے کے دوران میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ جنرل باجوہ جارحانہ پیش قدمی کے بجائے اب دفاعی مورچے کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ اُنہیں یہ اندازہ بھی ہوگیا تھا کہ سرکاری نوٹیفکیشن میں اگر کوئی 'رائی‘ تھی بھی تو اُسے پہاڑ نہیں بنا لینا چاہیے تھا۔ عین اُس وقت جنرل اعجاز بولے ''قمر تمہیں خود میاں صاحب سے بات کرنی چاہیے۔ جتنا زیادہ وقت گزرے گا‘ اتنا ہی معاملہ بگڑتا چلا جائے گا۔ جس طرح تم لوگوں کو غصہ آیا‘ اُسی طرح نوازشریف کو بھی غصہ آسکتا ہے۔ میں اُسے تم سے کہیں زیادہ بہتر جانتا ہوں‘‘۔

اچانک جنرل باجوہ بولے ''سَر ممکن ہے پرائم منسٹر ہمارے فارمل چینل سے ٹیلی فون کال نہ لیں۔ اگراُن سے بات ہوسکتی ہو تو کرادیں‘‘۔ میں نے راہداری میں جاکر رائیونڈ ایکسچینج کانمبر ملایا۔ کال تو مل گئی لیکن دوسری طرف وزیراعظم نہیں‘ مریم نواز بول رہی تھیں۔ میں نے مختصراً بتایا کہ اس وقت آرمی ہائوس میں ہوں۔ جنرل باجوہ وزیراعظم سے بات کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ مریم بولیں ''ہولڈ کریں انکل ...‘‘ چند لمحوں بعد کہنے لگیں '' انکل ابو اوکاڑہ گئے تھے۔ تھکے ہوئے ہیں اور سونے کو ہیں‘‘۔ مجھے وزیراعظم نوازشریف سے کوئی توقع نہ تھی کہ وہ 'Rejected‘ کا زہر میں بجھا تیر خاموشی سے کھالیں گے۔

تین گھنٹوں سے زائد پر محیط مذاکرات کے باوجود جب میں آرمی ہائوس سے اسلام آباد کے لیے نکلا تو دل وسوسوں سے چھلک رہا تھا تاہم میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ''ڈان لیکس‘‘ کی پیالی میں کیسے کیسے طوفان انگڑائی لے رہے ہی اور کیسے کیسے تلاطم بپا ہونے کو ہیں؟ (جاری)


Source



Comments...