Top Rated Posts ....

Who was Samia Baloch, a 25-year-old girl who suicide-attacked on a convoy of security forces in Turbat?

Posted By: Saleem, June 25, 2023 | 11:18:03


Who was Samia Baloch, a 25-year-old girl who suicide-attacked on a convoy of security forces in Turbat?



تربت میں سیکورٹی فورسز پر خودکش حملہ کرنے والی سمعیہ بلوچ کون تھیں؟

بلوچستان کے شہر تربت میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش حملہ آور ایک خاتون تھی جس کی شناخت کر لی گئی ہے۔

سمیعہ بلوچ نامی اس خاتون حملہ آور نے سینیچر کے روز تربت شہر میں کمشنر کے دفتر کے قریب سیکورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش حملہ کیا۔ جس میں حکام کے مطابق ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک خاتون کانسٹیبل سمیت دو اہلکار زخمی ہوئے۔

تربت میں بم دھماکوں سمیت بدامنی کے دیگر واقعات کے علاوہ سیکورٹی فورسز پر حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن کسی خاتون کی جانب سے اس شہر میں خودکش حملے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔

ایک سنیئر حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خاتون کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے تھا۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو اور وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے اس خود کش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت پسندی کے ان واقعات سے سیکورٹی فورسز مرعوب نہیں ہوں گے۔

سمعیہ بلوچ کون تھیں؟

کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق سمیعہ بلوچ کا تعلق خضدار کے علاقے توتک سے تھا۔

ان کا تعلق بلوچوں کے قبیلے قلندرانی سے تھا۔ سماجی رابطے کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر کالعدم بی ایل اے کی جاری کردہ معلومات کے مطابق سمعیہ بلوچ عرف سمو کی عمر 25 سال تھی۔

بی ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ ’سمعیہ بلوچ گذشتہ سات سال سے بلوچ لبریشن آرمی کے ساتھ منسلک تھی جبکہ چارسال قبل انھوں نے رضاکارانہ طور پر تنظیم کے مجید بریگیڈ کو اپنی خدمات پیش کیں۔‘

سمعیہ بلوچ کے مبینہ ٹوئٹر اکاؤنٹ کے پروفائل پر موجود معلومات اور بی ایل اے کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ تھیں اور پانچ سال تک تنظیم کی میڈیا ونگ میں خدمات سرانجام دیتی رہی۔

جب بلوچستان حکومت کے ایک سینیئرعہدیدار سے خودکش حملہ آورکی شناخت اوراس کے علاقے کے بارے میں معلومات کے سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا خودکش حملہ آور کے بارے میں معلومات اکھٹی کی جارہی ہیں تاہم ان کا تعلق توتک سے تھا۔

واضح رہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیموں نے سیکورٹی فورسز پر حملوں کے لیے خواتین بمبار کا استعمال کیا ہے۔

گذشتہ برس اپریل میں کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں کی وین پر بھی تربت سے تعلق رکھنے والی خاتون بمبار شاری بلوچ نے خود کش حملہ کیا تھا۔

اس خودکش حملے میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

جبکہ نور جہاں بلوچ نامی خاتون کو سیکورٹی فورسز نے ہوشاپ کے علاقے سے خود کش حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

’سمیعہ بلوچ سے قبل ان کے منگیتر نے بھی خود کش حملہ کیا تھا‘

کالعدم بی ایل اے کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق ’سمعیہ بلوچ ریحان بلوچ کی منگیتر اور بی ایل اے کے بانی رہنما اسلم بلوچ کی بہو تھیں۔‘

ریحان بلوچ نے بلوچستان کے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین کے قریب اگست 2018 میں چینی انجینیئروں اور کارکنوں پر خود کش حملہ کیا تھا۔

اس حملے میں تین چینی کارکنوں سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس حملے کا نشانہ بننے والے چینی کارکن ایک بس میں سینڈک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ سے دالبندین کی جانب جارہے تھے۔

’سمیعہ بلوچ کے متعدد رشتہ داروں کو جبری طورپر لاپتہ کیا گیا‘

کالعدم بی ایل اے کا دعویٰ ہے کہ 18فروری 2011 کو سیکورٹی فورسز نے مبینہ طور پر سمعیہ بلوچ کے دادا، چچا اورکزنز سمیت متعدد رشتہ داروں کو جبری طور پر لاپتہ کیا تھا۔

بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیربلوچ نے بتایا کہ انھیں یہ معلوم نہیں کہ خود کش حملہ آور خاتون کون ہیں تاہم 18 فروری 2011 کو سیکورٹی فورسز نے توتک کے علاقے میں ایک بڑا آپریشن کیا تھا جس کے دوران محمد رحیم قلندرانی، ان کے بیٹوں، نواسوں اور پوتوں سمیت 15کے قریب لوگوں کو اٹھایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ محمدرحیم کو جس وقت لاپتہ کیا گیا اس وقت ان کی عمر 70 سال سے زائد تھی۔

ماما قدیرکے مطابق نہ صرف اس آپریشن کے دوران بھی دو افراد ہلاک ہوئے بلکہ توتک سے لاپتہ کیے جانے والے افراد میں سے چند کی تشددزدہ لاشیں بھی ملی تھیں۔

ان کا کہنا تھا توتک سے رحیم قلندرانی سمیت متعدد افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔

ایک بلوچ سیاسی کارکن خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خودکش حملہ آور سمیعہ بلوچ، رحیم قلندرانی کی پوتی تھی۔


Source: BBC Urdu



Comments...