Top Rated Posts ....

Islamia University Bahawalpur video scandal: What is the reality?

Posted By: Zahoor, July 23, 2023 | 09:12:26


Islamia University Bahawalpur video scandal: What is the reality?



اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے مبینہ ’فحش ویڈیوز‘ سکینڈل کی حقیقت کیا ہے؟

’مجھے میرے والدین نے کہا کہ یونیورسٹی مت جاؤ۔ یونیورسٹی کا ماحول اچھا نہیں ہے۔‘

’یونیورسٹی میں سارا دن خوف اور چہ مگوئیوں میں گزرا ہے۔ طالب علم اور سٹاف مختلف باتیں کر رہے ہیں۔ ہر کوئی سوال پوچھ رہا ہے کہ موبائل میں کون سی ویڈیوز اور تصاویر موجود ہیں۔‘

’میں کہتی ہوں کہ اگر ایسا ہے بھی تو یہ ویڈیوز لیک نہیں ہونی چاہیں اور اگر ویڈیوز ہیں تو پھر ملزمان کو سزا ملنی چاہیے ہر صورت میں۔‘

یہ بیانات پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی کی چند طالبات کے ہیں جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی۔

وہ حال ہی میں یونیورسٹی کے ایک عہدیدار کے موبائل فون سے مبینہ فحش ویڈیوز برآمد ہونے کے واقعے پر تبصرہ کر رہی تھیں۔

بہاولپور پولیس کا دعویٰ ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ایک اہلکار کے موبائل فون سے ’لڑکیوں کی کم از کم 400 فحش ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئی ہیں‘ جن کی فرانزک رپورٹ کے بعد مزید کارروائی آگے بڑھائی جائے گی۔

پولیس نے اب تک اسلامیہ یونیورسٹی کے تین اہلکاروں کے خلاف آئس رکھنے کے الزام میں تین مختلف مقدمات درج کیے ہیں۔ تاہم یونیورٹسی انتظامیہ نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے انھیں ایک ’منظم سازش‘ اور ’انتقامی کارروائی‘ قرار دیا ہے۔

آئس رکھنے کے الزام میں ایک پروفیسر کو دو ماہ پہلے گرفتار کیا گیا جنھیں ضمانت پر رہائی ملی جبکہ پولیس کی جانب سے اسی الزام میں دو مزید اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اس مبینہ سکینڈل کی حقیقت کیا ہے؟

بی بی سی نے جب بہاولپور پولیس سے اس معاملے کے بارے میں رابطہ کیا تو مقامی پولیس کے ترجمان عمر سلیم نے بتایا کہ ’پولیس کو یونیورسٹی کے ایک اعلیٰ اہلکار کے موبائل فون سے کم از کم چار سومبینہ فحش ویڈیوز اور تصاویر بر آمد ہوئی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ یونیورسٹی کے مختلف حکام اور طالبات کی ہیں۔‘

پولیس نے اسی یونیورسٹی اہلکار سے منشیات برآمد ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ اس اہلکار کو حراست میں لیتے ہوئے مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔

دوسری جانب بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کے قانونی مشیر فاروق بشیر ایڈووکیٹ پولیس کے ان الزامات کو ’من گھڑت اور جھوٹا‘ قرار دیتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس ابھی تک اپنی حراست میں موجود یونیورسٹی عہدیدار کے فون سے برآمد ہونے والی ایک ویڈیو بھی نہیں دکھا سکی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا کچھ بھی نہیں ہے، یونیورسٹی کا میڈیا ٹرائل نہ کیا جائے۔‘

تاہم بہاورلپور پولیس کے ترجمان عمر سلیم کے مطابق یونیورسٹی عہدیدار کے فون سے حاصل ہونے والی تمام ویڈیوز کو فارانزک رپورٹ کے لیے بھجوا دیا گیا ہے اور یہ رپورٹ موصول ہونے کے بعد پہلے سے درج مقدمہ میں مزید دفعات شامل کر دی جائیں گی۔

’سیکس کی گولیاں، آئس اور فحش ویڈیوز‘ برآمد ہونے کا پولیس دعویٰ

بہاولپور یولیس کی جانب سے پولیس کی ہی مدعیت میں یونیورسٹی کے ایک اعلیٰ اہلکار پر نارکوٹیکس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

درج مقدمہ میں مدعی سب انسپکٹر محمد افضل نواز ہیں جن کے مطابق وہ چند پولیس اہلکاروں کے ہمراہ بہاولپور میں بغداد الجدید موڑ پر فرائض سرانجام دے رہے تھے جب ایک سفید رنگ کی گاڑی کو پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا تو گاڑی والے نے سڑک کی غلط جانب سے تیزی سے واپس مڑنے کی کوشش کی۔

سب انسپکٹر محمد افضل کی مدعیت میں درج مقدمہ میں لکھا گیا ہے کہ ’پولیس نے اس گاڑی کو روکا تو گاڑی میں ایک ہی شخص موجود تھا جس کی تلاشی کے دوران ایک عدد سیاہ پرس اور سیکس کے لیے استعمال ہونے والی پانچ گولیاں برآمد ہوئیں۔‘

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ پرس کی تلاشی کے دوران ٹرانسپیرنٹ مومی کاغذ میں لپٹی ہوئی کرسٹل آئس بر آمد ہوئی جس کا وزن 10 گرام تھا۔

ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’گاڑی سے دو عدد موبائل فون بھی برآمد ہوئے جن کا موقع پر جائزہ لیا گیا تو دونوں میں مبینہ طور پر لاتعداد فحش ویڈیوز اور خواتین کی تصاویر موجود تھیں۔‘

ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے ملزم نے اپنا تعارف اسلامیہ یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی افسر کے طور پر کرواتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس کے فون میں موجود مبینہ ویڈیوز یونیورسٹی کی مختلف طالبات اور حکام کی ہیں۔

ایف آئی آر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ملزم نے کرسٹل آئس اور سیکس کی گولیوں کے ذاتی استعمال کے ساتھ ان کی فروخت میں ملوث ہونے کا بھی اعتراف کیا۔

پولیس کے مطابق موبائل فون سمیت برآمد ہونے والی تمام اشیا کو فارانزک رپورٹ کے لیے لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے۔

’یونیورسٹی کے خلاف منظم مافیا سازش کر رہا ہے‘

فاروق بشیر ایڈووکیٹ اسلامیہ یونیورسٹی کے قانونی مشیر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اس مقدمے کو یونیورسٹی کے خلاف ایک ’منظم سازش‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت یونیورسٹی میں طالب علموں کی تعداد 17 ہزار تک پہنچ چکی ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔‘

’یونیورسٹی اس وقت منافع میں جا رہی ہے جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ ایک منظم مافیا یہ سازش کر رہا ہے۔‘

فاروق بشیر نے دعویٰ کیا کہ ’کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو آئس کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اب یہ واقعہ سامنے آیا ہے۔‘

یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی افسر اور اس کیس کے ملزم کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’وہ سات سال سے یونیورسٹی میں تعینات ہیں اور ان کے خلاف ایک بھی شکایت نہیں ہے۔ پولیس کے پاس بھی ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔‘

فاروق بشیر ایڈووکیٹ پولیس کے خلاف اپنی شکایات تحریری شکل میں آئی جی پنجاب پولیس اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھجوا رہے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری یونیورسٹی کے کلاس رومز، برآمدوں، ڈیپارٹمنٹ۔۔۔ جگہ جگہ ہزاروں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ غیر جانبدار تفتیشی ٹیم تشکیل دی جائے تو ہم سارا ریکارڈ ان کے حوالے کرنے کو تیار ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی اور منشیات کے واقعات کو بالکل برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے پاس ایک سال کے دوران ہراسانی پر درخواستوں اور فیصلوں کا ریکارڈ تو نہیں ہے مگر یونیورسٹی میں اس کو برداشت نہیں کیا جاتا اور سات سال کے دوران گرفتار ہونے والے عہدیدار کے خلاف ایک بھی درخواست نہیں آئی۔‘

فاروق بشیر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والے اعلیٰ اہلکار ایک بڑے ادارے میں خدمات انجام دیتے ہیں، وہاں پر شکایات ہو سکتی ہیں اور ان شکایات پر مبنی ویڈیوز موجود ہو سکتی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی ایسی ویڈیوز ہو سکتی ہیں جن میں کوئی طالب علم کسی طالبہ کو ہراساں کر رہا ہو اور شکایت کے طور پر اس کی ویڈیو آئی ہو۔‘

یونیورسٹی کے اس موقف پر جب بی بی سی نے بہاولپور پولیس سے رابطہ کیا تو ترجمان عمیر سلیم کا کہنا تھا کہ ’ہمارا موقف درج ایف آئی آر میں موجود ہے اور واقعہ کی ابھی تفتیش چل رہی ہے۔‘

’ہر کوئی پوچھ رہا ہے کہ موبائل میں کون سی ویڈیوز اور تصاویر ہیں‘

یونیورسٹی اور پولیس کے متضاد موقف نے معاملہ سلجھانے کے بجائے مذید الجھا دیا ہے۔ چہ مگویوں کی وجہ سے اسلامیہ یونیورسٹی کے طلباء وطالبات میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے۔

بی بی سی نے جامعہ کی چند طالبات سے رابطہ کیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔

ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ کہ ’واقعہ کے بعد مجھے میرے والدین نے کہا کہ یونیورسٹی مت جاؤ۔ یونیورسٹی کا ماحول اچھا نہیں ہے۔ مگر میں انتہائی منت سماجت کے بعد یونیورسٹی پہنچی ہوں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’میری کئی دوستوں کو ان کے والدین نے یونیورسٹی نہیں آنے دیا۔‘

ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی میں سارا دن خوف اور چہ مگوئیوں میں گزرا۔ مختلف طالب علم اور سٹاف مختلف باتیں کر رہے ہیں۔ کوئی کچھ کہہ رہا ہے تو کوئی کچھ۔ ہر کوئی سوال پوچھ رہا ہے کہ موبائل میں کون سی ویڈیوز اور تصاویر موجود ہیں اور ان کو موبائل میں کیوں رکھا گیا تھا۔‘

ان طالبہ کا کہنا تھا کہ ’سمجھ نہیں آتا کہ کیا کہا جائے اور کیا کیا جائے۔ مگر میں کہتی ہوں کہ اگر ایسا ہے بھی تو یہ ویڈیوز لیک نہیں ہونی چاہیں اور ملزمان کو ہر صورت سزا ملنی چاہیے۔‘

پولیس کا یونیورسٹی میں ٹرانسپورٹ سے منسلک اہلکار کی گرفتاری کا دعویٰ

بہاولپور پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں شعبہ ٹرانسپورٹ سے منسلک ایک شخص کو گرفتار کیا ہے۔ اس شخص کے خلاف درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ یہ یونیورسٹی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اور اس سے ’آٹھ گرام آئس بر آمد ہوئی‘ ہے۔

یونیورسٹی حکام کے خلاف درج اس تیسرے مقدمے پر ردعمل دیتے ہوئے یونیورسٹی کے قانونی مشیر فاروق بشیر ایڈووکیٹ نے اس گرفتاری کی تصدیق کی اور بتایا کہ ’یہ کوئی ٹرانسپورٹ انچارج وغیرہ نہیں (بلکہ) کسی کم عہدے پر فائز ہیں جنھیں پہلے گرفتار کیا گیا اور اب گرفتاری ڈالی گئی ہے۔‘

انھوں نے اس گرفتاری کو بھی پولیس کی جانب سے ’انتقامی کاروائی‘ قرار دیا ہے۔

جبکہ ترجمان بہاولپور پولیس کے مطابق ان کا ادارہ ’صرف اور صرف بچوں کا مستقبل محفوظ‘ بنا رہا ہے اور پولیس کے پاس ’تمام ثبوت موجود ہیں، جو وقت پر ظاہر کیے جائیں گے۔‘

واضح رہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا شمار ملک کی قدیم یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔

یونیورسٹی کی بنیاد 1925 میں جامعہ عباسیہ کی حیثیت سے رکھی تھی جبکہ 1975 میں اسے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور قرار دیا گیا تھا۔

اس یونیورسٹی کے ذیلی کیمپس رحیم یار خان، بہاولنگر اور لیاقت پور میں بھی موجود ہیں اور یونیورسٹی ترجمان کے مطابق مجموعی طور پر 65 ہزار طالب علم اس یونیورسٹی کے مختلف کیمپسز اور شعبوں میں زیر تعلیم ہیں۔

اس یونیورسٹی میں 148 مختلف شعبہ جات ہیں جن میں پانچ ہزارسے زائد ٹیچنگ اورغیر ٹیچنگ سٹاف خدمات انجام دیتا ہے۔


Source



Comments...