Top Rated Posts ....

Rizwana's parents have 10 children, they handed over Rizwana to judge for just 10,000 Rs.

Posted By: Saleem, August 03, 2023 | 06:28:32


Rizwana's parents have 10 children, they handed over Rizwana to judge for just 10,000 Rs.



گھریلو ملازمہ تشدد کیس: ’باجی نے میری بیٹی کو گاڑی سے اُتارا اور کہا یہ پکڑو اپنا گند‘

صوبائی دارالحکومت لاہور میں جنرل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ (آئی سی یو) میں سفید چادر میں لپٹی لگ بھگ 12 سالہ بچی لیٹی ہے۔ اس کا جسم حرکت نہیں کر رہا مگر جسم کے ساتھ جڑے طبی آلات اور مشینیں یہ بتا رہی ہیں کہ اس کی سانسیں چل رہی ہیں۔

دور ہی سے دیکھنے پر نظر آتا ہے کہ ان کے سر پر زخموں کے گہرے نشان ہیں۔ لیکن بیڈ کے دوسری طرف جا کر جب اس کے چہرے اور آنکھوں پر نظر پڑتی ہے تو جسم میں جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے۔ چہرے پر آنکھوں کی جگہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے صرف دو کالے گڑھے باقی ہیں۔

آنکھوں کے ارد گرد جلد پر پرانے زخموں کے نشان سوکھ چکے ہیں۔ یہ دیکھ کر سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوا ہو گا؟

کمسن بچی کے سر کے لگ بھگ ایک تہائی سے زیادہ حصے سے جلد غائب ہے اور سر کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے سے گڑھے پڑے ہیں۔

ان کی والدہ شمیم بی بی نے بتایا کہ چند روز قبل جب وہ رضوانہ کو اسلام آباد سے واپس سرگودھا لا رہی تھیں تو بچی کے سر کے ان زخموں میں کیڑے موجود تھے۔

’اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی انگلیاں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اس کے جسم پر ہاتھ لگانے سے اس کی چیخیں نکل جاتی تھیں۔‘

شمیم بی بی کہتی ہیں کہ واپسی کے سفر پر بس میں بیٹھے ان کی بچی صرف رو رہی تھی اور انھیں بتا رہی تھی کہ گذشتہ سات مہینے میں اس کے ساتھ کیا کیا ہوا ہے۔‘

شمیم بی بی، ان کے شوہر ماہنگا خان اور خاندان کے چند دوسرے افراد لاہور جنرل ہسپتال کے سرجیکل وارڈ کے ایک پرائیویٹ کمرے میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اوپر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں سرگودھا سے تعلق رکھنے والی رضوانہ ادویات کے زیرِ اثر بے سدھ پڑی ہیں۔

ان کے جسم کے ساتھ جڑی ایک مشین پر وہاں موجود نرسوں کی خاص نظر ہے۔ یہ مشین بتاتی ہے کہ ان کے جسم میں آکسیجن کا لیول کتنا ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق گذشتہ چند روز کے دوران کم از کم دو مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ رضوانہ کے جسم میں آکسیجن کی سطح جسے سیچوریشن بھی کہا جاتا وہ اس حد تک گِر گئی کہ انھیں آکسیجن یعنی مصنوعی تنفس پر متنقل کرنا پڑا۔

اس کی وجہ ان کے پھیپھڑوں میں ہونے والا انفیکشن ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ انفیکشن ان زخموں سے آیا ہے جو رضوانہ کے سر، کمر، بازو، چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں پر موجود ہیں اور پرانے ہیں۔ ان زخموں میں انفیکشن ہوا جو علاج نا ہونے کی وجہ سے پورے جسم سے پھیل گیا۔

وہیں سے یہ ان کے اندرونی اعضا اور پھیپھڑوں تک بھی پہنچ چکا ہے۔ منگل کے روز ان کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ رضوانہ کی زندگی کے لیے آئندہ 48 گھنٹے بہت اہم ہیں۔

تاہم سوال یہ ہے کہ لگ بھگ بارہ سال کی چھوٹی سی عمر میں رضوانہ سرگودھا میں اپنے گھر کو چھوڑ کر اسلام آباد کیسے پہنچیں؟ اور پھر اس حالت میں لاہور کے جنرل ہسپتال تک کیسے آئیں جہاں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں؟

’دوسرے دن ہی انھوں نے میری بچی کو مارنا شروع کیا‘

شمیم بی بی کے دس بچے ہیں۔ رضوانہ کا پانچواں نمبر ہے۔ ان کا خاندان سرگودھا شہر میں لاری اڈے کے قریب جناح کالونی میں رہائش پذیر ہے۔ وہ خود قریب واقع ایک گاؤں 88 چک میں ایک زمیندار کے گھر پر ملازمہ ہیں جبکہ ان کے شوہر ماہنگا خان مزدوری کرتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شمیم بی بی نے بتایا کہ لگ بھگ سات ماہ قبل جس زمیندار کے گھر پر وہ کام کرتی ہیں انھوں نے کہا کہ ’اسلام آباد میں ان کے ایک عزیز کو ملازمہ کی ضرورت ہے۔ وہ اچھے خاندان والے ہیں تم اپنی چھوٹی بچی ان کو دے دو۔‘

’اس نے کہا کہ بچی پڑھتی بھی رہے گی اور ساتھ گھر کا چھوٹا موٹا کام کاج بھی کر دیا کرے گی۔‘ شمیم بی بی نے بتایا کہ زمیندار کی بات پر اعتبار کر کے ان کے گھر والوں نے یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی کہ وہ کون اور کیسے لوگ ہیں۔

’وہ زمیندار ہی بچی کو ہمارے پاس سے لے کر اسلام آباد گئے اور ان کے گھر چھوڑ آئے۔ ہمیں کیا پتا تھا کہ میری بچی کے ساتھ وہ اتنا ظلم کریں گے۔ جس دن وہ گئی دوسرے دن ہی انھوں نے میری بچی پر تشدد کرنا شروع کر دیا۔‘

شمیم بی بی نے بتایا کہ بچی کی ملازمت کے عوض زمیندار کی طرف سے ہر ماہ انھیں دس ہزار روپے موصول ہو جاتے تھے۔ انھیں صرف یہ معلوم تھا کہ بچی جن کے گھر کام کرتی ہے وہ ایک جج ہیں۔

بچی پر کیا گزری، کیسے پتا چلا؟

یہ سوال سُن کر شمیم بی بی جو دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی تھیں، نڈھال ہو کر نیچے بیٹھ گئیں اور دوپٹے میں منہ چھپا کر رونے لگیں۔ ساتھ کھڑے ان کے شوہر ماہنگا خان ان کو دلاسا دیتے رہے۔

شمیم بی بی نے کچھ سنبھلنے پر دوبارہ بولنا شروع کیا۔ وہ کہتی ہیں ان کی کبھی کبھار اپنی بچی سے فون پر بات ہو جاتی تھی لیکن بہت مختصر۔ ’باجی کہتی تھیں کہ زیادہ لمبی بات نہیں کرنی ورنہ بچی گھر جانے کی ضد کرنے لگتی ہے۔‘

شمیم بی بی نے بتایا کہ رضوانہ فون پر ان سے واپس گھر آنے کا کہتی تھیں۔ یہ بات بتا کر وہ ایک مرتبہ پھر رونے لگیں۔ وہ کہتی ہیں چند روز قبل اسی زمیندار نے انھیں فون پر اطلاع دی کہ اسلام آباد میں ان کے عزیز کہہ رہے ہیں کہ بچی کام کاج نہیں کرتی اس کو واپس لے جاو۔

رضوانہ کو لینے کے لیے ان کی والدہ سرگودھا سے ایک نجی بس سروس کی بس پر سوار ہو کر اسلام آباد پہنچیں۔ زمیندار نے انھیں بس سٹینڈ پر ہی رکنے کو کہا۔ انھوں نے کہا کہ بچی وہیں پہنچ جائے گی۔

’یہ پکڑو اپنا گند‘

شمیم بی بی نے بتایا کہ انھیں بس اڈے پر انتظار کرتے دو گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر گیا تو انھوں نے زمیندار سے رابطہ کیا۔ زمیندار نے پھر کہا کہ وہیں رکیں بچی پہنچنے والی ہے۔ وہ کہتی ہیں لگ بھگ چار گھنٹے بس سٹینڈ پر انتظار کرنے کے بعد ایک گاڑی وہاں آئی۔

اس وقت اندھیرا ہو چکا تھا۔ ان کی بچی رضوانہ اگلی سیٹ پر بیٹھی تھیں۔ ان کا چہرہ دوپٹے سے اس طرح ڈھکا ہوا تھا کہ صرف ناک اور منہ ہلکا سا نظر آ رہا تھا۔ گردن اور سر کو خاص طور پر دوپٹے میں لپیٹا گیا تھا۔

’باجی بھی ساتھ تھیں۔ انھوں نے وہیں بچی کو نیچے اتارا اور مجھے کہا یہ پکڑو اپنا گند۔ یہ کہہ کر وہ گاڑی بھگا کر نکل گئیں۔‘ نم آنکھوں سے شمیم بی بی نے بات جاری رکھی۔ ’میں نے جب رضوانہ کو بازو سے پکڑا تو درد سے اس کی چیخ نکل گئی۔ میں سمجھی باجی نے مارا ہو گا، کام جو نہیں کر رہی تھی۔‘

لیکن پھر انھوں نے رضوانہ کے سر اور چہرے سے دوپٹہ ہٹانا شروع کیا۔ ’اس کے سر اور آنکھوں کی حالت دیکھ میری آہیں نکل گئیں۔ رضوانہ نے بلک بلک کر رونا شروع کر دیا۔ اس نے کہا امی باجی نے مجھے بہت مارا ہے۔‘

شمیم بی بی کہتی ہیں ان کی بچی کے زخموں سے بدبو آ رہی تھی۔ ان میں کیڑے چل رہے تھے۔ وہ کہتی ہیں بس سٹینڈ پر لوگ دیکھ رہے تھے۔ ان کی بیٹی رو رہی تھیں اور وہ اپنی چھاتی پیٹ رہی تھیں۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔

’باجی زخم پر مارتی تھیں تو میں خود بخود آگے چل پڑتی‘

بس سٹینڈ پر موجود لوگوں نے ان کی مدد کی اور رضوانہ کو اٹھایا کر ایک جگہ بٹھایا۔ پہلے انھوں نے ٹیکسی لے کر واپس سرگودھا کی طرف جانے کا سوچا لیکن ٹیکسی والے جتنا کرایہ مانگ رہے تھے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔

انھوں وہیں سے واپسی کی بس کا ٹکٹ لیا۔ لوگوں نے ان کی بچی کا اٹھا کر بس میں سوار کیا اور وہ انھیں لے کر واپس سرگودھا چل پڑیں۔ شمیم بی بی کہتی ہیں ان کی بیٹی میں چلنے یا کھڑے ہونے کی سکت نہیں تھی۔

’وہ صرف رو رہی تھی اور مجھے بتا رہی تھی کہ امی باجی نے دوسرے دن ہی سے مجھے مارنا شروع کر دیا تھا۔ وہ کہتی تھیں صفائی ٹھیک نہیں ہوئی۔‘

شمیم بی بی کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ وہ تو کھڑی بھی نہیں ہو سکتی تھی تو کام کیسی کر لیتی تھیں۔ ’اس نے کہا امی باجی جب میرے کمر پر بنے زخم پر مارتی تھیں تو میں خود بخود آگے چل پڑتی تھی۔‘

یہ بتاتے ہوئے شمیم بی بی کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے۔ ’اس نے کہا میری انگلیاں دیکھو۔ باجی یوں انگلیاں پھنسا کر پیچھے کو مروڑتی تھیں۔ باجی کے اتنے بڑے بڑے ناخن تھے جو وہ میری آنکھوں میں گھسیڑ دیتی تھیں۔‘

شمیم بی بی کہتی ہیں اس وقت رضوانہ کی آنکھوں اور انگلیوں کی حالت دیکھ کر خوف آتا تھا۔ رضوانہ نے انھیں بتایا کہ زخمی حالت میں بھی جج کی اہلیہ انہیں گھر کے اندر نہیں سونے دیتی تھیں۔ وہ باہر لان میں سوتی تھیں جہاں کئی مرتبہ وہ بارش میں بھی بھیگ گئیں۔

رضوانہ لاہور کب اور کیسے پہنچیں؟

شمیم بی بی نے بتایا کہ جس بس میں وہ اسلام آباد سے واپس سرگودھا کی طرف جا رہی تھیں اس میں تین ڈاکٹرز بھی سوار تھے جن میں دو خواتین تھیں۔ انھوں نے رضوانہ کی حالت دیکھی تو شمیم اور ان کی بچی کے پاس آ گئے۔

وہ کہتی ہیں ڈاکٹروں نے جب بچی کو دیکھا تو انھوں نے کہا کہ اس کی حالت بہت خراب ہے۔ انھوں نے بچی کو درد کم کرنے کی گولیاں دیں لیکن اس کا درد کم نہیں ہوا۔ راستے میں ریسٹ ایریا میں بس رکی تو وہاں ڈاکٹروں کی مدد سے بچی کو ابتدائی طبی امداد بھی دی گئی۔

’ان ڈاکٹروں نے کہا کہ اس بچی کو فوری یہیں کسی ہسپتال میں لے جاؤ ورنہ یہ مر جائے گی لیکن میں نے کہا مجھے اب بس کسی طرح میرے گھر پہنچا دو۔ میں اپنی بچی کو گھر لے جاؤں۔‘

شمیم بی بی نے بتایا کہ انہی تین ڈاکٹروں نے سرگودھا میں ٹیلی فون پر اطلاع دے کر ایمبولینس کا بندوبست کر لیا تھا۔ جب بس سرگودھا میں سٹینڈ پر پہنچی تو ایمبولینس پہلے سے وہاں کھڑی تھی۔ اس پر رضوانہ کو فوری طور پر ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا لے جایا گیا۔

وہ ایک رات وہاں پر رکیں اور اگلے روز ڈاکٹروں کی ہدایت پر انھیں لاہور میں جنرل ہسپتال کی ایمرجنسی میں بھجوا دیا گیا۔ شمیم بی بی کہتی ہیں اس وقت تک یہ خبر مقامی ذرائع ابلاغ پر سامنے آ چکی تھی کہ ایک جج کی بیوی نے کمسن بچی پر تشدد کیا ہے۔

وہ کہتی ہیں اس کے بعد حکومت نے خود سے بچی کے علاج کا ذمہ اٹھایا۔ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر خبر پھیلنے کے بعد اسلام آباد میں پولیس نے جج کی اہلیہ کے خلاف کمسن بچی پر تشدد کا مقدمہ بھی درج کر لیا ہے تاہم وہ عدالت سے سات اگست تک ضمانت حاصل کر چکی ہیں۔


Source




Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...