Top Rated Posts ....

کسی یوزر کے مرنے کے بعد گوگل پر موجود اس کے ڈیٹا کا کیا ہوگا ۔ اس کا فیصلہ مرنے والا کرے گا

Posted By: Zulfiqar Shah, June 27, 2013 | 07:57:05




معروف سرچ انجن گوگل نے ایک ٹول متعارف کرایا ہے جس کے ذریعے صارف یہ فیصلہ کر پائے گا کہ اس کے انتقال یا آن لائن پر غیرفعال ہوجانے کی صورت میں اس کے ڈیٹا کے ساتھ کیا کیا جائے۔

یہ سہولت گوگل کے تحت چلنے والی تمام ای میل سروسز، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ گوگل پلس اور دیگر اکاؤنٹس پر موجود ہوگی۔
اس ٹول کے تحت گوگل اپنے صارفین کو یہ اختیار یا موقع فراہم کرے گا کہ وہ خود یہ طے کریں کہ اگر وہ مر جاتے ہیں یا آن لائن یا غیر فعال ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں ان کے ڈیٹا کے ساتھ کیا کیا جائے۔
گوگل ایسے حساس معاملے پر کام کرنے والی پہلی بڑی کمپنی بن گئی ہے۔
صارف اس ٹول کو استعمال کرتے ہوئے یہ طے کرے گا کہ ایک خاص مدت کے بعد اس کے زیرِاستعمال اکاؤنٹ یا ڈیٹا کو مٹا یا ختم کر دیا جائے یا پھر وہ یہی اختیار کسی انسان کے سپرد بھی کر سکتا ہے۔
دنیا بھر سے انٹرنیٹ کے صارفین نے اس بات پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ ان کے انتقال کے بعد معلوم نہیں ان کے ڈیٹا کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔
ایک بلاگ پوسٹ پر گوگل نے کہا، ’ہمیں امید ہے کہ یہ نیا آپشن آپ کو آپ کے ڈجیٹل ڈیٹا کی زندگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار اس انداز میں دے گا کہ آپ کی حفاظت اور تخلیے میں خلل نہ پڑے اور آپ کے بعد آپ کے پیاروں کی زندگی آسان رہے۔‘
کیلی فورنیا کی کمپنی گوگل ویڈیوز کی سائٹ یو ٹیوب، فوٹو شیئرنگ سروس پکاسا اور بلاگر جیسی سائٹس بھی چلاتی ہے۔
گوگل کا کہنا ہے کہ ان کا صارف تین، چھ، نو یا بارہ مہینے غیر فعال رہنے پر اپنے ڈیٹا کو ختم یا مٹا دینے کا اختیار استعمال کر سکتا ہے، بصورت دیگر مخصوص اکاؤنٹس پر اُن کے ڈیٹا کو منتقل کرنے کی سہولت بھی اسی ٹول کے زریعے مہیا کی جائے گی تاہم گوگل صارف کی جانب سے مہیا کیے گئے نمبر یا ثانوی ای میل ایڈریس پر ڈیٹا منتقل کرنے سے قبل خبردار ضرور کرے گا۔
خیال رہے کہ بڑی تعداد میں لوگ اپنا اعدادی مواد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس، ای میل اور دیگر سہولتوں پر رکھتے ہیں تاکہ ضرورت کے وقت آسانی سے مہیا ہو سکے۔
اس سے قبل دیگر کمپنیوں نے بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تھی جو کسی صارف کے انتقال کے بعد پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موت کی صورت میں انٹر نیٹ پر موجود ڈیٹا کا کیا کیا جائے۔


Source: BBC NEWS URDU



Comments...