Top Rated Posts ....

Why I am silent....?? Absar Alam breaks his silence

Posted By: Hashim Ali, March 26, 2022 | 12:03:31


Why I am silent....?? Absar Alam breaks his silence



میں چپ کیوں ہوں؟ ابصار عالم

چند مُحبت کرنے والوں نے پُوچھا کہ میں آج کل ٹوئٹرپر چُپ کیوں ہوں؟
کئی سال پہلے مجبوری یہ تھی کہ بچے چھوٹے تھے۔ اُن کے ساتھ بیٹھ کر اُن کے پسندیدہ کارٹون پروگرام نہ صرف بار بار دیکھنے پڑتے بلکہ بچوں کا دل رکھنے کے لیے اور ایک فرینڈلی باپ نظر آنے کی کوشش میں زبردستی قہقہے بھی لگانے پڑتے تھے۔

آج کل جو کُچھ مُلک میں ہو رہا ہے ایسا پہلے بھی کئی بار دیکھ چُکے، جیسے کارٹون پروگرام کے تمام کرداروں کا، اُن کی اگلے سین کی حرکات اور ” دی اینڈ “ علم ہوتا تھا اسی طرح موجودہ کہانی اور کرداروں کا کتنا اور کیا رول ہے وہ بھی معلوم ہے۔

اب بچے بڑے ہو گئے ہیں۔ ان کا دل اب مصنوعی قہقہوں سے بہلایا نہیں جا سکتا۔ اب اُنہیں اچھی تعلیم چاہیے، اُس کے بعد اچھی مُلازمت یا کاروبار کے مواقع چاہئیں، امن و امان چاہیے، زندگی کی بُنیادی سہولیات چاہئیں، گھر سے دہی لینے جائیں تو کسی روڈ ایکسیڈنٹ، مُحافظ پولیس یا موبائل چھیننے والے کی گولی سے بچ کر دہی سمیت زندہ گھر واپس آجائیں۔ تعلیم مُکمل کر لیں تو بغیر رشوت یا تعلقات کے کوئی عزت کی نوکری یا کام شروع کر لیں، ایسا کام جہاں نئے نویلے سی ایس ایس بابُو کرپٹ ایلیٹ کے قبضے کی زمینوں پر بنے محلات اور گالف کلبز نہ گرا سکنے کا بوجھِ ضمیر کسی غریب کی ریڑھی اُلٹا کر ہلکا نہ کریں۔

چُپ اس لیے ہوں کہ جب دُوسرے مُمالک کے آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور سپیس ٹیکنالوجی سےمُسلح نوجوان مریخ پر بستیاں بسانے کی تیاریوں میں ہیں، ہمارے 20 بیس سال کے نوجوان سُود پر قرض کے پیسوں سے موٹر سائیکل خرید کر معمولی تنخواہ پر سردیوں کی تاریک راتوں میں فوڈ ڈلیوری کرنے کی جلدی میں کسی ریڈ سگنل کو توڑتے ہوئے مُخالف سمت سے آنے والی کسی پراپرٹی ڈیلر یا اُس کے بگڑے بچے کی لینڈ کروزر کے جاپانی ٹائرز کے نیچے کُچلے جاتے ہیں۔
اس وقت ہمارے مُلک کا اخلاقی طور پر سب سے بہترین نوجوان یا تو فوڈ ڈیلیوری میں جا رہا ہے یا پھر بائیکیا BYKEA کو جوائن کر رہا ہے تا کہ حلال رزق کما سکے۔ اس تعداد پر نہ ہی کوئی ڈیٹا دستیاب ہے اور نہ ہی اُن کے حقوق پر کوئی کام۔ ” اخلاقی طور پر بہترین” اس لیے کہا کہ اپنے ارد گرد دولت کی اتنی غیر مُناسب تقسیم دیکھ کر اور انتہائی غیر مُنصفانہ نظام میں رہتے ہوئے بھی وہ جرائم پیشہ نہیں بنے اور رزق حلال کے لیے اتنا مُشکل کام کم تنخواہ پر کرتے ہیں۔

چُپ اس لیے ہوں کہ جب دیکھتا ہوں کہ ٹیکنالوجی کے دور میں جب ترقی یافتہ مُلکوں کے نوجوان اپنے دفتر میں بیٹھ کر ڈرون کے ذریعے ہزاروں میل دور اپنے دُشمن کو نشانہ بنا سکتے ہیں، ہمارے اٹھارہ 20 سال کے نوجوان اپنی نان ٹیکنیکل ناکارہ ڈگریاں ہاتھ میں اُٹھائے پندرہ ہزار روپے مہینہ پر 24 چوبیس گھنٹے سیکورٹی گارڈ کی ڈیوٹی کرتے اور کسی ناکردہ گُناہ میں “صاحب” (جو اکثر پراپرٹی ڈیلر یا کسی قبضہ گروپ کا سربراہ ہوتا ہے) کو بچانے میں کسی اور قبضہ گروپ کی گولی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

چُپ اس لیے ہوں کہ جب موٹروے پر سفر کرتا ہوں تو سروس ایریا کے ہر کونے کھُدرے میں ایک مڈل ایج شخص پانی کی بالٹی اور وائپر کے ساتھ آپ کی گاڑی کی ونڈ سکرین صاف کرنا شروع کر دے گا اس اُمید پر کہ ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود شاید اُسے بیس روپے کی بخشش عنایت ہو جائے اور وہ دن بھر کی بے عزتی اور مُشقت کے بعد شام کو اپنے بچوں کی دال روٹی کا بندوبست کر سکے۔

کیا اس ظُلم اور غیر مُنصفانہ نظام کے لیے بنایا تھا پاکستان آج سے پچھتر سال پہلے؟ جہاں پر امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جائے؟

چُپ اس لیے ہوں کہ کیا ججوں، جرنیلوں، جرنلسٹوں اور الیکٹیبل سیاستدانوں نے یہ سب ڈرامے کئی بار نہ صرف دیکھے ہوئے ہیں بلکہ اُن کے سینئرز ان استحصالی ڈراموں کے اہم کردار رہ چُکے، ماضی کے اُن مفاداتی ڈراموں کا جتنا نقصان مُلک کو ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھُپا نہیں، لیکن گھسی پٹی کہانی پر مُشتمل وہی پُرانے ڈرامے نئی کاسٹ کے ساتھ چلائے جا رہے ہیں تا کہ نئی نسل جس کو تاریخ کا ادراک نہیں اُسے مزید تقسیم اور گُمراہ کر دیا جائے۔

اپنے ہی مُلک کی جوان نسل کو مُنقسم اور گُمراہی میں رکھنا اس لیے ضروری ہے تا کہ اس مُلک کے استحصالی حُکمران گروہ (اشرافیہ) کو سستی لیبر اپنے ذاتی اور محکمانہ کاموں کے لیے ہمیشہ مُیسر رہے۔

آپ کسی جج، جرنیل، اینکر یا الیکٹیبل سیاستدان کے بچے کو نہ تو موٹر سائیکل پر فوڈ ڈیلیوری کے منافع بخش کاروبار میں مصروف دیکھیں گے، نہ بائیکیا چلانے کا ایڈونچر کرتے ہوئے، نہ ہی سیکورٹی گارڈ اور نہ ہی موٹروے اور ٹریفک سگنل پر کسی جج، جرنیل، اینکر یا الیکٹیبل سیاستدان کا بچہ وائپر سے گاڑیوں کے شیشے صاف کر رہا ہو گا۔

لیکن اس استحصالی حکمران گروہ کے اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں میں پرائیویٹ گارڈ کے ساتھ پرائیویٹ ہسپتالوں سے علاج کروا کر امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم پانے کے بعد جوانیاں وہاں گُزارتے ہیں، پھر پُر باش اُدھیڑ عُمری میں “وطن کی مُحبت” میں واپس آکر یہاں حُکمرانی شُروع کردیتے ہیں اور ہمیں مغربی مُعاشرے کے انصاف، ترقی اور امن کی کہانیاں سُناتے سُناتے یہ بھی سکھاتے ہیں کہ ہم میں کون کونسی ذہنی، جسمانی اور موسمی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے انصاف، برابری، امن، معاشی خوشحالی اور جمہوریت کا نظام یہاں چل ہی نہیں سکتا۔

کسی بھی جدید معاشرے اور قوم کی ترقی، اور معاشرتی توازن کے لیے سب سے اہم کردار جج اور صحافی کا ہوتا ہے کیونکہ ان کا کام سچ اور جھُوٹ میں سے سچ کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ یہ ” نیوٹرل” ہو ہی نہیں سکتے۔ دُنیا کا کوئی بھی مُعاشرہ جرنیل اور سیاستدان سے اُن اعلی اخلاقی اقدار کا مُطالبہ کبھی بھی نہیں کرتا جس معیار کا مُطالبہ جج اور جرنلسٹ سے کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے۔ یہاں سیاستدان سے فرشتگی کا مُطالبہ کرتے کرتے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے والے جج، جرنیل اور جرنلسٹ کے سات خُون بھی مُعاف ہوتے ہیں۔

ججز، جرنیل، جرنلسٹس اور الیکٹیبل سیاستدانوں کا اُسی جوش و جذبے سے پُرانی فلم دوبارہ دیکھنے اور کمینٹری سُنانے کا شوق سر آنکھوں پر لیکن یہ ایسی چربہ فلم ہے جس کا ” دی اینڈ” سب کو معلوم ہے اور اگر کوئی شک تھا تو 23 مارچ پریڈ ختم ہونے کے فوراً بعد آرمی چیف کے “عوام میں گھُل مل جانے” اور “کھُلی ڈُھلی گُفتگو” کا سین ڈالنے سے دُور بھی ہو گیا۔

پے در پے اندرونی اور بیرونی ناکامیاں (“ذلت “ لفظ کا استعمال نہیں کرنا چاہتا) اُٹھانے کے بعد بھی اگر کُچھ لوگوں میں خلق خُدا کی آواز اور رائے کا ٹھٹھا اُڑانے کی ہٹ دھرمی ابھی زندہ ہے تو سوچتا ہوں کہ ”کیا ہم سب اپنے آپ کو دھوکہ دے رہےہیں؟ “
میڈیا والوں کو ”انسان“ بننے کا درس دینے والے کبھی اپنے کارناموں اور رویوں کی الماری کھولنے کی جُرآت کریں تو اتنے گڑے مُردے نکلیں گے کہ انسان اور جانور کی تفریق کرنا مُشکل ہو جائے گا۔
لہٰذا چربہ فلم پر لُڈیاں ڈالنے کو دل نہیں چاہ رہا، اس فلم کا ”دی اینڈ “ کچھ اور ہُوا تو دیکھیں گے۔

اس لیے چُپ ہوں اور ”دی اینڈ “ کا انتظار کر رہا ہوں۔


بشکریہ: پاکستان 24 ڈاٹ ٹی وی



Comments...