Top Rated Posts ....

Justice Qazi Faez Isa's Wife Sarina Isa Writes Letter To President of Pakistan

Posted By: Zafar Ali, November 04, 2020 | 07:43:44


Justice Qazi Faez Isa's Wife Sarina Isa Writes Letter To President of Pakistan




کیونکہ میں آئی جی کو اُس کے بیڈ روم سے اغوا نہیں کروا سکتی تو مُجھے خود تھانے جانا پڑا۔ مسز سرینا عیسیٰ


تحریر ۔۔ اسد علی طور

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ صدرِ مُملکت عارف علوی کے نام ایک دھماکہ خیز کُھلے خط میں بہت سے سوال اُٹھاتے ہوئے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور آئین شِکن غدار آمر جنرل مُشرف کی نیب کے پراسیکیوٹر سے سُپریم کورٹ کے جج تک پہنچنے والے جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ اور حکومت کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مُبینہ گٹھ جوڑ کو بھی پہلی دفعہ ریکارڈ پر لے آئی ہیں۔

مسز سرینا عیسیٰ صدر عارف علوی کو لکھتی ہیں کہ بتایا جاتا ہے کہ عبدالوحید ڈوگر کو میری پراپرٹیوں کا علم ہوا تو اُس نے پی ٹی آئی کے مرزا شہزاد اکبر کو لکھا۔ مسز سرینا عیسیٰ نے سوالیہ انداز میں لکھا کہ عبدالوحید ڈوگر نے اپنی تحریری شکایت پر اپنے رابطہ کی تفصیلات نہیں چھوڑی تھیں لیکن پھر بھی نامعلوم موقع اور مُقام پر مرزا شہزاد اکبر نے اُن سے مُلاقات کا دعویٰ کیا ہے جو معلوم نہیں پھر شاید اتفاقیہ طور پر دو ذہنوں کا ملاپ ہوگیا ہوگا؟ مسز عیسیٰ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میری ذاتی زندگی پر تحقیقات شروع کردی گئیں اور اُنکو عوامی موضوع بناتے ہوئے ایک زہریلا پراپیگنڈہ مُہم لانچ کردی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ پوچھتی ہیں کہ جنابِ صدر آپ نے کیوں کبھی نہیں پوچھا کہ آپ کا صدارتی ریفرنس کیسے عوامی ریکارڈ پر آگیا؟ نہ آپ نے کسی سے یہ پوچھنا مُناسب سمجھا کہ آخر سرینا عیسی اور اُنکے بچوں سے آج تک اِن جائیدادوں پر سوال کیوں نہ کیا گیا؟ اور آپ نے یہ پوچھنا بھی گوارا نہ کیا کہ کیسے یہ اخذ کرلیا گیا کہ یہ جائیدادیں میرے شوہر کی ہیں؟ مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ ایک سال لگا آپ کا ریفرنس اُٹھا کر باہر پھینکنے میں۔ مسز سرینا عیسیٰ صدر عارف علوی کو بتاتی ہیں کہ میں بطور اُستاد اپنے بچوں کو پڑھاتی تھی کہ اپنی غلطی مان کر معافی مانگ لینے سے انسان کا قد کاٹھ بڑھتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اپنے خط میں مزید لکھتی ہیں 19 جون 2020 کو صدارتی ریفرنس کو کوڑے دان میں پھینک دیا گیا لیکن وہ قوتیں پھر بھی باز نہیں آئیں اور انہوں نے اب کی بار براہِ راست تصادم کی راہ اپنائی۔ مسز سرینا عیسیٰ کا موقف ہے کہ راولپنڈی کے ایک مولوی مرزا افتخار الدین سے اُنکے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکی دے کر براہِ راست للکارا گیا۔ مسز سرینا عیسیٰ حیرت کا اظہار کرتی ہیں کہ عبدالوحید ڈوگر کی شکایت پر تو ریاست کے سب سے بڑے دفتر نے فوراً توجہ دی لیکن کُھلے عام دہشتگردی کی یہ ترغیب کو نظر انداز کردیا گیا۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ عام حالات میں پیمرا فوری نوٹس لیتا ہے اور پی ٹی اے بھی ایسے مواد کو بلاک کرنے کے لیے مُتحرک رہتا ہے لیکن ایسے صحافی جِن کے ٹویٹس ناقابلِ تسخیر ہو جائیں تو اغوا کر لیے جاتے ہیں مگر پتہ چلتا ہے کہ سیف سٹی کیمروں کی وڈیو ہی غائب ہوگئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ آئی جی سندھ کے اغوا پر طنز کرتی ہیں کہ کیونکہ میں آدھی رات کو ایک آئی جی گھسیٹ کر اُس کے بیڈروم سے باہر نہیں نکال سکتی تھی اِس لیے مرزا افتخار الدین کے جُرم کی 24 جون 2020 کو خود رپورٹ درج کروانے تھانے چلی گئی۔

مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ اِس سے بدتر اور بھیانک کیا ہوسکتا ہے کہ منظر کشی کی جائے کہ میرے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کیسے فائرنگ اسکواڈ سے قتل کروایا جائے اور پھر اُنکی کی لاش کی نمائش کی جائے اور مُجھے تب تک اُنکی لاش نہ دی جائے جب تک میں اپنے شوہر کو ماری گئی گولیوں کی قیمت نہ ادا کردوں۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ اُس وڈیو کو دیکھ کر میری طبیعت بوجھل ہوگئی۔ مسز سرینا عیسیٰ سوال اُٹھاتی ہیں کہ اِس سے زیادہ نفرت انگیز کُچھ نہیں ہوسکتا کہ آپ اللہ کہ عبادت گاہ میں بیٹھ کر قتل و غارت کی تبلیغ کریں اور نہ اِس سے زیادہ اسلام ساکھ کو بدنام کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں کبھی پولیس اسٹیشن نہیں گئی لیکن 24 جون 2020 کو پہلی بار گئی کیونکہ ریاست اور اُسکی ایجنسیاں اِن دھمکیوں پر غفلت کی مُرتکب ہورہی تھیں۔ مسز سرینا عیسیٰ نے خط میں صدر عارف علوی کو بتایا انہوں نے مُقدمہ کے اندراج کی اپنی تحریری درخواست کے ساتھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکیاں دینے والے مولوی دہشت گردی کی تبلیغ کی وڈیو والی یو ایس بی، ملزم مولوی افتخار الدین کی تصویر، پتہ اور فون نمبر بھی جمع کروایا لیکن سیکریٹریٹ تھانہ کے ایس ایچ او کو وفاقی وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ نے مُقدمہ کے اندراج، ملزم کی گرفتاری اور مُقام کی تلاشی سے روک دیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وزیرِ داخلہ بریگیڈئیر اعجاز شاہ نے بالکل وہی حرکت کی جو اُنکے پیشرو چوہدری نثار نے کوئٹہ کمیشن کے جج کے خلاف کی تھی۔

مسز سرینا عیسیٰ لکھتی ہیں کہ اخبارات میں رپورٹ ہونے کے بعد جب چیف جسٹس نے نوٹس لیا تو میری شکایت کے اندراج کے چھ روز بعد ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا جِس کا مطلب فرسٹ یعنی پہلی رپورٹ کا معنی بے معنی ہوگیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ملزم مولوی مرزا افتخارالدین سُپریم کورٹ پہنچ گیا اور اُس کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اُسکو کورٹ روم میں نہیں آنے دیا جارہا لیکن کسی نے پکڑ کر یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ آپ نے کِس کے ایما پر یہ دھمکی دی۔ مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں مگر وہاں مولوی مرزا افتخار الدین کو اسکیورٹی اور پروٹوکول کے ساتھ چائے بِسکٹ پیش کیے گئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ مولوی مرزا افتخارالدین ضمانت کروانے میں کامیاب ہوگیا ہے اور آزاد گھوم رہا ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ نے حکومتی نیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ جو حکومت چھوٹے کیسز میں ضمانتیں منسوخ دکھانے کے لیے ہر وقت چوکس رہتی ہے اُس نے ملزم مولوی افتخار الدین کی نقل و حرکت محدود کرنے کی کوشش نہیں کی اور اُسے نفرت اُگلنے اور دہشت گردی کی ترغیب دینے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ مُجھے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے اچانک ایک نوٹس موصول ہوا جِس میں انسدادِ دہشت گردی کے جج نے ازخود نوٹس لے لیا ہوا تھا کہ ملزم مولوی مرزا افتخار الدین پر دہشت گردی کی دفعات کیوں لگا دی گئیں۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا مزید کہنا تھا کہ مُجھے ایک وکیل کی خدمات لینی پڑی جِس نے مُجھے بتایا کہ جج پہلے سے جُرم پر اپنا ذہن بنا چُکے تھے کہ یہ جُرم انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔ میرے وکیل نے تحریری دلائل جمع کروائے اور بہت پُر زور اصرار کیا جبکہ دوسری طرف مُلزم مولوی افتخار الدین کے وکیل نے نہ تو عدالت کا دائرہ کار چیلنج کیا، نہ عدالت سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کی درخواست کی، نہ تحریری دلائل جمع کروائے اور نہ عدالت میں بحث کی لیکن انسدادِ دہشت گردی کے جج نے ملزم مولوی مرزا افتخار الدین کو دہشت گردی کے الزام سے بری کردیا۔ مسز سرینا عیسیٰ حیرت کا اظہار کرتی ہیں کہ ملزم مولوی مرزا افتخار الدین نے اعتراف کیا کہ نشر کردہ وڈیو میں تصویر اور آواز اُن ہی کی ہے لیکن انسدادِ دہشت گردی کے جج لکھتے ہیں کہ استغاثہ کا “الزام” ہے کہ تقریر ملزم افتخار الدین کی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھتی ہیں کہ ایک ملزم دہشت گردی کی تبلیغ کرتا ہے، سُپریم کورٹ کے جج کو قتل کرنے اور لاش کی نمائش وغیرہ کا کہتا ہے لیکن انسدادِ دہشت گردی کا جج لکھتا ہے “اتنا سنجیدہ معاملہ نہیں” تو میں حیران ہوں اگر یہ بھی اتنا سنجیدہ معاملہ نہیں تو کیا ہوگا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ کوئٹہ میں 70 وُکلا کا قتلِ عام کیا جاتا ہے اور تب تک کیس حل نہیں ہوتا جب تک سُپریم کورٹ کے ایک جج کا کمیشن تحقیقات نہیں کرتا۔ مسز سرینا عیسیٰ فیض آباد دھرنہ کیس کے فیصلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کراچی کی سڑکوں پر مئی 2007 کو پچاس بے گناہ لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے، فیض آباد پر دھرنہ میں ایک مذہبی انتہا پسند گروہ دہشت گردی کی تبلیغ کرتا ہے عوام کو تشدد پر اُکساتا ہے اور ایک واقعہ جِس میں صدر صاحب آپ بھی ملوث تھے سرکاری عمارتوں پر حملہ کیا جاتا ہے اور وہی سُپریم کورٹ کا جج (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) اِن تمام واقعات پر لکھتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر ڈٹ جانے کا عزم دکھاتا ہے۔ مسز سرینا عیسی کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کمیشن کی سفارشات پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ انتہائی تلخی سے کہتی ہیں کہ جنابِ صدر کتنے شرم کی بات ہے جِس مُلک ہزاروں خواتین، مرد، بچے، اساتذہ اور سویلینز کو دہشت گردوں نے قتل کیا وہ آج ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ پر ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ ہم کوئٹہ کمیشن کی سفارشات پر تو عملدرآمد نہیں کرتے لیکن غیرمُلکی مُمالک کے دباو پر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کاروائی کرتے ہیں تو کیا جو ایکشن ہمارے مُلک کے مُفاد میں ہو اُس کے لیے بھی ہمیں اب غیر مُمالک کی ڈکٹیشن لینی ہوگی کہ اپنا تحفظ کرو؟ مسز سرینا عیسیٰ صدر عارف علوی سے اصرار کرتی ہیں کہ وہ ایمانداری سے بتائیں کہ اگر کوئٹہ کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد ہوتا تو کیا آج پشاور آرمی پبلک اسکول کے معصوم طلبا زندہ نہ ہوتے؟ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سوال اُٹھاتی ہیں کہ کیا بچ جانے والے زخمی جو عُمر بھر دہشت گردی کے نفسیاتی خوف میں گزاریں گے صرف آپ کو اپنے ساتھ تصویر کھنچوانے کا موقع فراہم کرنے کے لیے زندہ بچ گئے تھے؟

مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ اُنکا بیان ریکارڈ کرنے والے ایف آئی اے کے اہلکار نے اُنہیں بتایا کہ ایف آئی اے نے ملزم مولوی مرزا افتخار الدین کے درجنوں مُلکی اور غیر مُلکی بینک اکاؤنٹس، ذرائع آمدن اور زیرِ استعمال موبائل فون کنکشنز کا سُراغ لگایا ہے اور یہ رپورٹ سُپریم کورٹ کے سامنے پیش بھی کی گئی لیکن بعد ازاں ایف آئی اے نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے سامنے یہ رپورٹ پیش کرنا مُناسب نہ سمجھی۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اِس موقع پر انتہائی اہم بات کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنا بیان ایف آئی اے کو ریکارڈ کرواتے ہوئے اپنا شُبہ ظاہر کیا تھا کہ ملزم مولوی افتخار الدین مرزا اور مرزا شہزاد اکبر اور عبدالوحید ڈوگر کے اُن عناصر کے ساتھ روابط کی تحقیقات کی جائیں جنہوں نے صحافی احمد نورانی پر حملہ کیا تھا کیونکہ عبدالوحید ڈوگر نے احمد نورانی پر حملہ پر جھوٹی خبر لگائی تھی اور میں چاہتی تھی کہ اِس کے لیے ڈی جی آئی ایس آئی سے رابطہ کیا جائے لیکن تحقیقات پر اثر انداز ہوکر اُنکو سبوتاژ کردیا گیا۔

اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اپنے خط کے سب سے دلچسپ اور انکشافات و الزامات سے بھرپور حصہ کی طرف آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ سُپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے صدارتی ریفرنس رکھنے سے پہلے اُس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وہ ریفرنس میرے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دکھایا۔ مسز عیسیٰ بتاتی ہیں کہ میرے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بتایا کہ یہ اُنکی جائیدادیں نہیں اور اُنکا اِن جائیدادوں سے کوئی لینا دینا نہیں جِس پر جسٹس کھوسہ کی آبزرویشن تھی کہ “پھر تو یہ ریفرنس قابلِ سماعت ہی نہیں ہے۔” جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ الزام لگاتی ہیں کہ پھر کُچھ ایسا ہوا یا ذہن بدلا کہ سابق چیف جسٹس آصف نے میرے شوہر کی پیٹھ کے پیچھے سُپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بُلانے کا فیصلہ کیا اور اُس وقت کے اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان کو متعدد نوٹس بھجوائے اور یہ وہ انور منصور خان تھے جنہوں نے پی ٹی آئی مرزا شہزاد اکبر کو یکم جون 2019 کو خط لکھ کر میرے ٹیکس ریٹرن مانگے تھے اور یوں اٹارنی جنرل اور مرزا شہزاد اکبر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خلاف ایک دوسرے سے اتحاد کرلیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ سابق چیف جسٹس نے اِن دونوں کو بھرپور قانونی فائدہ پہنچاتے ہوئے میرے شوہر سے منی ٹریل اور فنڈز کے ذرائع پوچھے جِن سے جائیدادیں خریدی گئی تھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سُپریم کورٹ کے ایک اور ریٹائرڈ جج جسٹس عظمت سعید شیخ پر بھی الزام لگاتی ہیں کہ انہوں نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اپنی ریٹائرمنٹ سے چھ روز قبل بھی میرے شوہر کے خلاف ریفرنس سُنا اور انتہائی اعتماد کے ساتھ جاتے جاتے فیصلہ دینا بھی یقینی بنایا۔ مسز سرینا عیسیٰ لکھتی ہیں کہ جسٹس عظمت سعید شیخ نے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ایک ایسے فیصلہ پر دستخط کیے جِس میں میرے شوہر کو سُنے بغیر اُنکے ساتھی جج نے اُنکے خلاف انتہائی سخت تنقیدی زبان استعمال کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اختصار سے ایف بی آر میں اپنی پیشیوں اور جوابات کی تفصیل بیان کرکے طنز کرتی ہیں کہ انہوں نے اِن جوابات میں اپنی تنخواہ اور زرعی آمدن کو ظاہر کرتے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ذرائع آمدن کے غیر ضروری و غیر معیاری سوال کا خیال بھی رکھا تاکہ اُسکا جواب بھی مِل جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے صدرِ مُملکت عارف علوی کو مُخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جنابِ صدر میرا شوہر سُپریم کورٹ کا جج ہے اور انہوں نے آپ کو تین خط لکھے لیکن آپ میں اتنی اخلاقیات نہیں کہ آپ ایک کا بھی جواب دیتے لیکن آپ ریفرنس پر ٹی وی انٹرویو میں بات کر لیتے ہیں تبھی میں بھی یہ خط میڈیا کو جاری کررہی ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اپنے خط کے اختتامی پیراگراف میں لکھتی ہیں کہ اُنکے وکیل نے بتایا ہے کہ ملزم مولوی افتخار الدین مرزا سے تحقیقات کے بغیر اُسکو دہشت گردی کے الزام سے بری کرنے کا فیصلہ با آسانی کالعدم ہوسکتا ہے لیکن میں اب اُس فیصلہ کو چیلنج کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ یہ ہر حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان کا تحفظ کرے لیکن ہماری حکومت کے اعلیٰ حُکام اِس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ مسز سرینا عیسیٰ آخر میں صدر عارف علوی کو آگاہ کرتی ہیں کہ میں اور میرا شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے ساتھ اسکیورٹی اسکواڈ نہیں رکھتے ہیں اور ہماری حفاظت اللہ کرے گا لیکن جنہوں نے یہ سب کیا ہے اور جو ایسے کاموں کے لیے پراکسیز استعمال کرکے خود پیچھے چُھپا رہنے کے لیے مشہور ہیں اُنکو بتا دینا چاہتی ہوں کہ اگر ہمیں کُچھ ہوا تو اُنکے نام ایف اے ٹی ایف، انٹرپول اور اقوامِ مُتحدہ کو دئیے جائیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اپنے خط کا اختتام اِس جُملہ پر کرتی ہیں کہ جو آج طاقت کے نشے میں چُور ہیں اُنکو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کبھی نہ کبھی جوابدہ ضرور بنائے جائیں گے۔



Source



Comments...