Copyright Policy Privacy Policy Contact Us Instagram Facebook
Top Rated Posts ....
Engineer Muhammad Ali Mirza's first response after being released from Jail Engineer Muhammad Ali Mirza's first response after being released from Jail Dramatic video shows a private jet crashes on a highway in Florida Dramatic video shows a private jet crashes on a highway in Florida A woman had an interesting chat with Bilawal Bhutto during his stroll in Lahore's streets A woman had an interesting chat with Bilawal Bhutto during his stroll in Lahore's streets Breaking News: Former DG ISI General (R) Faiz Hameed Sentenced To 14 Years in Prison Breaking News: Former DG ISI General (R) Faiz Hameed Sentenced To 14 Years in Prison The remaining charges against General (retd) Faiz are yet to be processed and these are very important charges - Hamid Mir The remaining charges against General (retd) Faiz are yet to be processed and these are very important charges - Hamid Mir Two Friends, 67 Tola Gold, and a murder: What happened in Dr. Warda's murder case Two Friends, 67 Tola Gold, and a murder: What happened in Dr. Warda's murder case

My Life Has Been Ruined - Kohat University's Student (Blasphemy Victim) Shares His Story





'توہین مذہب کا الزام لگا کر میری زندگی تباہ کر دی گئی'

عاقب ﷲ شاہ دو لوگوں کے ہمراہ بھاگتے ہوئے ایک طرف جا رہا ہے۔ راستے میں لوگ اس سے پوچھتے ہیں کہ وہ اتنی عجلت میں کیوں ہے تو وہ انہیں کہتا ہے کہ وہ جواب کے لئے 'تھوڑا انتظار کریں'۔

کچھ لمحوں بعد وہ اور اس کے ساتھی ایک کلاس روم میں داخل ہوتے ہیں جہاں موجود استاد اُن سے اچانک آ دھمکنے کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس پر عاقب اللہ کلاس میں موجود ایک طالب علم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: 'اس نے توہینِ صحابہ کی ہے'۔

اس کے بعد عاقب اللہ اور اس کے ساتھی اس طالب علم کو مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ واقع چار نومبر 2020 کو صبح ساڑھے دس بجے کے قریب کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پیش آیا۔ تشدد کا شکار ہونے والا طالبعلم وہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ میں ساتویں سمیسٹر میں پڑھ رہا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ تین ماہ قبل اس نے فیس بک پر کچھ مذہبی شخصیات کی مبینہ توہین کی تھی۔

سجاگ سے بات کرتے ہوئے اس کا کہنا ہے کہ 'تشدد کرنے والوں میں سے ایک شخص نے مجھے پکڑ رکھا تھا، ایک مجھے مار رہا تھا جبکہ ایک اس پورے منظر کی ویڈیو بنا رہا تھا'۔

کلاس روم میں موجود استاد اور کچھ طالب علموں نے بڑی مشکل سے اسے حملہ آوروں کے چنگل سے چھڑایا اور چھپا کر اسے وائس چانسلر کے دفتر میں لے آئے۔ لیکن اس دوران یونیورسٹی کے طالب علموں کی ایک بڑی تعداد مشتعل ہو چکی تھی۔ ان میں سے کچھ نے موقع پر موجود موٹر سائیکلوں سے پٹرول نکال کر بوتلوں میں ڈالنا شروع کر دیا تاکہ مبینہ طور پر توہینِ مذہب کرنے والے طالب علم کو پکڑ کر جلایا جا سکے۔ وہ ہر آنے جانے والی گاڑی کی تلاشی بھی لے رہے تھے تاکہ وہ زندہ بچ کے نکل نہ جائے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کے ارکان نے تشدد کا نشانہ بننے والے طالب علم کو کچھ وقت کے لئے ایک واش روم میں چھپا دیا۔ پھر اس کی منہ پر ماسک پہنایا گیا ، سر پر چادر دی گئی اور ایک گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹا کر اسے یونیورسٹی کی حدود سے باہر نکال دیا گیا۔

انتظامیہ کے ایک رکن سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت یونیورسٹی میں 'حالات انتہائی کشیدہ تھے۔ ایک مشتعل ہجوم اُس طالب علم کو پکڑ کر جلانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا لیکن ہم اُسے یونیورسٹی سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئے'۔

مشتعل طلبہ کی قیادت کرنے والا عاقب اللہ یونیورسٹی میں حکومتی جماعت سے منسلک طلبہ تنظیم انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کا صدر ہے۔ سجاگ سے بات کرتے ہوئے اس کا کہنا ہےکہ 'اگر وہ طالب علم مجھے مل جاتا تو میں اسے یونیورسٹی سے زندہ باہر نہ جانے دیتا'۔

لیکن یونیورسٹی سے نکلنے کے باوجود تشدد کا نشانہ بننے والے طالب علم کے مسائل کم نہ ہوئے۔

ابتلا کا آغاز

چار ستمبر 2020 کی رات دس بجے کے قریب اس کے والد اپنے دوستوں کے ہمراہ کوہاٹ کے مضافات میں اپنے گھر کے قریب بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے جب انھوں نے دیکھا کہ پولیس کی چار پانچ گاڑیاں ان کی گلی کی طرف جا رہی ہیں۔ انھوں نے اپنے بڑے بیٹے کو فون کیا تاکہ پولیس کے آنے کی وجہ معلوم کر سکیں جس پر انہیں پتہ چلا کہ پولیس تو انہی کے گھر کے سامنے کھڑی ہے۔

وہ دوڑے دوڑےگھر پہنچے تو دیکھا کہ لگ بھگ بیس مسلح پولیس اہلکار جن میں ایک خاتون بھی شامل تھیں ان کے چھوٹے بیٹے کو گرفتار کر رہے ہیں۔ بعد ازاں جب وہ مقامی پولیس سٹیشن گئے تو وہاں انہیں بتایا گیا کہ ان کے بیٹے کو فیس بُک پر مبینہ طور پر گستاخانہ مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

اگلے روز ان کے بیٹے کو کوہاٹ کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا جس نے چھ دن کے بعد اسے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا اور یوں وہ 12 ستمبر کو گھر واپس پہنچ گیا۔

قید سے واپسی کے بعد اس نے چھٹے سمسٹر کا امتحان بھی دیا لیکن دیگر طالب علموں کے برعکس اس کا امتحان یونیورسٹی میں نہیں ہوا بلکہ اس کے گاؤں کے قریب ایک سکول کو اس کا کمرہ امتحان قرار دے کر اسے وہاں پرچے حل کرنے کی اجازت دی گئی۔

26 اکتوبر کو اس نے اپنی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ سے درخواست کی کہ اسے ساتویں سمیسٹر کے دوران کلاسوں میں حاضری سے استثنا دیا جائے کیونکہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ لیکن جب اسے اس درخواست کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو تین نومبر کو وہ یونیورسٹی جا پہنچا جہاں اگلے ہی دن اس پر حملہ ہو گیا۔

لیکن اس پر ہونے والے تشدد کے بعد نہ تو یونیورسٹی انتظامیہ نے تشدد کے ذمہ دار طالب علموں کے خلاف کوئی کارروائی کی اور نہ ہی پولیس نے ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا۔ الٹا اس کو ہی یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔

اس کا کہنا ہے: 'مجھے مارنے والے اور یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روکنے والے عناصر نے تو میرا مستقبل تباہ کر دیا ہے۔ میں اپنے گھر سے باہر نہیں جا سکتا کیونکہ میری تصویریں (سوشل میڈیا) پر پھیلا دی گئی ہیں۔ اب اگر میں (نزدیکی شہر) کوہاٹ بھی جاؤں تو لوگ مجھے پہچان لیں گے اور اس کے بعد وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں'۔

اس کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس کی تعلیم اور زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے لوگوں کے خلاف 'کوئی کاروائی تو ہونی چاہئے'۔



Source: Sujag.org



Comments...