Top Rated Posts ....

Viral Story of Mango Trees' Destruction In Multan? What Is Real Story? BBC Urdu's Report

Posted By: Faisal Jan, March 23, 2021 | 01:57:35


ملتان میں آم کے درختوں کی کٹائی کی کہانی کیا ہے؟




پاکستان میں آم کا موسم ابھی شروع نہیں ہوا، مگر سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن کے حوالے سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ مبینہ طور پر ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کی جانب سے سوسائٹی کی تعمیر کے لیے ملتان میں بڑے پیمانے پر آم کے درختوں کی کٹائی کی ہیں۔

صوبہ پنجاب کا یہ جنوبی شہر اپنے آم کے باغات کے لیے مشہور ہے اور آم تو ویسے ہی اس خطے میں ’پھلوں کا بادشاہ‘ سمجھا جاتا ہے۔

ان ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بعض صارفین اور سماجی کارکنان کا خیال ہے کہ جہاں ایک طرف حکومت ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے اربوں درخت لگا رہی ہے وہیں اس طرح کے رہائشی منصوبوں کے لیے زرعی زمین یا درختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی غیر قانونی ہونی چاہیے۔

مقامی افراد اور حکام نے تصدیق کی ہے کہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز ملتان کے بوسن روڈ اور شجاع آباد روڈ پر واقع آم کے باغات کی کٹائی کی ہیں۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز کے بعد ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) پر تنقید کی جا رہی ہے لیکن کم از کم جن ویڈیوز پر یہ حالیہ بحث جاری ہے یہ ڈی ایچ اے کی نہیں ہیں۔

وائرل ویڈیوز کس سوسائٹی کی ہیں؟

مقامی لوگوں کے مطابق وائرل ہونے والی ویڈیوز میں سے ایک ویڈیو، جس میں آم کے درخت کاٹ کر ایک ٹریکٹر ٹرالی پر رکھے جارہے ہیں، یہ بوسن روڈ کی ہے۔

ایک مقامی زمیندار نے بوسن روڈ والی ویڈیو کے بارے میں بتایا کہ یہ سات سے آٹھ ماہ پرانی ہے۔ بوسن روڈ کی یہ جگہ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے منصوبے فیز ون کے لیے استعمال ہو رہی ہے جبکہ باقی کی ویڈیوز جن میں درختوں کو کٹتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے یہ شجاع آباد روڈ کی ہیں جہاں پر اسی سٹی ہاوسنگ سوسائٹی کے فیز ٹو پر کام ہو رہا ہے۔

مینگو گروور ایسوسی ایشن ملتان کے صدر طارق خان کے مطابق ایک ویڈیو شجاع آباد روڈ کے علاقے نشتر ٹو کی ہے جہاں سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی نے اپنے فیز ٹو منصوبے کی تعمیر کا اعلان کر رکھا ہے۔

کیا یہ کٹائی غیر قانونی ہے؟

ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈی جی آغا علی عباس نے بتایا کہ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کو بوسن روڈ پر فیز ون پر کام کرنے کی ’اجازت دی گئی ہے‘ جس میں وہ ’خریدی گئی زمینوں پر درختوں کی کٹائی سمیت ہر قسم کا ترقیاتی کام کر سکتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’تاہم شجاع آباد روڈ پر سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کو فیز ٹو پر منصوبہ شروع کرنے کی مشروط اجازت دی گئی تھی جس میں ابھی وہ درختوں کی کٹائی سمیت کوئی بھی تعمیراتی کام شروع نہیں کرسکتے ہیں۔‘

ان کے مطابق وہ شجاع آباد روڈ پر ہونے والی درختوں کی کٹائی سے متعلق تحقیقات کریں گے کیوں کہ ابھی تک وہاں تعمیراتی کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

اس خبر کے لیے سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی ملتان کے مینیجر حافظ بلال سے رابطہ قائم کیا گیا اور ان کو تحریری سوالات بھی بھجوائے گئے مگر اس خبر کے فائل کرنے تک انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

آغا علی عباس کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر نجی ملکیت کی زرعی زمینیں جو زرعی زون میں نہیں آتیں وہاں محکمہ درختوں کی کٹائی، باغات اور زرعی زمنیں ختم کرنے اور کاٹنے پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کر سکتا۔

تاہم باغات اور زراعت کے لیے محفوظ قرار دیا گیا علاقہ جو کہ پندرہ، سولہ سو ایکڑ بنتا ہے وہاں پر کسی کو بھی تعمیرات کی اجازت نہیں ہے۔

ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی نے اپنے فیز ون منصوبے کے دوران اس علاقے میں تعمیرات کی کوشش کی تھی جس پر ان کا کام بند کروا دیا گیا تھا۔

ملتان کے محکمہ ماحولیات کے مطابق سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کو ابھی تک ماحولیات کے حوالے سے محکمے کی جانب سے فیز ٹو کے لیے کوئی این او سی نہیں ملا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی جنگلات کے حوالے سے پالیسی میں باغات شامل نہیں ہیں۔ جو درخت جنگلات کے ذمرے میں آتے ہیں۔ وہ درخت کسی بھی وجہ سے کاٹنے کے لیے مالکان پر بھی لازم ہے کہ وہ محکمہ جنگلات سے اجازت حاصل کریں گے۔ مگر باغات کے ذمرے میں آنے والے درخت جو کہ پھل دار درخت ہیں ان کو کاٹنے کے لیے مالکان کو کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ماسوائے اس کے اگر وہ کسی حکومتی پالیسی اور معاہدے کے تحت لگائے گئے ہوں۔

’زمیندار آم کے باغات بیچنے پر مجبور کیوں؟‘

درختوں کی کٹائی پر قانونی بحث کے علاوہ بعض لوگوں کو یہ دُکھ بھی ستا رہا ہے کہ ان کے من پسند پھل آم کے درخت کاٹے جا رہے ہیں۔

حکام کے مطابق اس وقت ملتان میں بہت زیادہ تیزی کے ساتھ ترقیاتی کام ہو رہا ہے، جس میں کئی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے منصوبے زیر تعمیر ہیں۔ بوسن روڈ کا علاقہ چند سال قبل تک تقریباً دیہی علاقہ تھا اور یہ اپنے آم کے باغات کے لیے شہرت رکھتا تھا۔

بوسن روڈ کے ایک زمیندار محمد اسحاق نے بتایا کہ یہ جگہ، جہاں پہلے آم کے درخت موجود تھے، انھوں نے اپنی مرضی سے فروخت کی ہے اور اب یہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کی نجی ملکیت ہے۔

شجاع آباد روڈ کے علاقے کے ایک زمیندار نے بتایا کہ انھوں نے باغ کا علاقہ ’زیادہ دام‘ وصول کر کے فروخت کیا ہے۔

ڈی ایچ اے ملتان اور سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کا فیز ون ایک دوسرے کے قریب تعمیر ہو رہے ہیں اور ان دونوں مقامات پر آم کے درخت بڑی تعداد میں کاٹے گئے ہیں۔ اب یہاں تیزی سے کام جاری ہے جس میں رہائشی و کمرشل زمینیں لوگوں کے لیے دستیاب ہیں۔

بوسن روڈ کے علاقے میں ڈی ایچ اے کی تقریباً چار ہزار ایکٹر پر ہاؤسنگ سوسائٹی پر کام ہو رہا ہے جبکہ ڈی ایچ اے کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے قریب سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے فیز ون منصوبے پر 1889 کنال پر کام ہو رہا ہے۔

سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے فیز ٹو منصوبے کا، جو کہ شجاع آباد روڈ پر واقع ہے، رقبہ تین ہزار کنال سے زیادہ ہے۔

ملتان مینگو گروور ایسوسی ایشن کے صدر طارق خان کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند برسوں سے ملتان کے اندر زرعی زمینیں اور باغات کو ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے فروخت کرنے کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔ زمیندار خود اپنی خوشی سے مہنگے داموں یہ زمینیں فروخت کررہے ہیں۔

طارق خان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ باغات اور زرعی زمین سے زمیندار کی آمدن کا کم ہونا اور حکومت کی جانب سے اس پر کوئی توجہ نہ دینا ہے۔ ’اگر زمیندار کو مارکیٹ سے اچھے پیسے ملتے ہیں تو وہ زمینوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دو، تین بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے علاوہ چھوٹی بڑی کئی ہاؤسنگ کالونیاں اس وقت بن رہی ہیں جن کے لیے زرعی زمین اور باغات استعمال ہو رہے ہیں۔

نشتر کے علاقے میں اپنا باغ فروخت کرنے والے ایک زمیندار کا کہنا تھا کہ ’اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے باغ فروخت کیا ہے۔ ہم نے اس کے بہت اچھے دام لیے ہیں۔ ملنے والے پیسوں سے کوئی کاروبار وغیرہ شروع کرنے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ زراعت سے اب ہم لوگوں کا چولہا نہیں جلتا ہے۔‘

ملتان میں پراپرٹی سے منسلک محمد پرویز کے مطاق ڈی ایچ اے کی تعمیر سے قبل اس علاقے میں زمین کی قیمت 25 سے 35 لاکھ روپے فی ایکٹر تھی۔

جب ڈی ایچ اے ملتان نے اپنی تعمیرات کا اعلان کیا تو فی ایکٹر زمین کی قیمت ’ایک کروڑ تک پہنچ گئی تھی۔‘ لوگوں کو جب دگنے پیسے ملنے لگے تو انھوں نے اپنی زمینیں فروخت کرنا شروع کر دی تھیں۔

’زمیندار اپنی زمین بھی فروخت کرتے تھے اور اس کے بدلے میں پلاٹ کے کاغذات بھی حاصل کرتے تھے۔‘

محمد پرویز کا کہنا تھا کہ اب ڈی ایچ اے اور سٹی ہاوسنگ سوسائٹی کے فیز ون والے مقام پر فی ایکٹر کی قیمت دو کروڑ سے بھی زیادہ ہو چکی ہے جبکہ اگر کوئی مکمل سوسائٹی یا پلاٹنگ ہوئی ہے تو اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔‘

’باغات کاٹ کر ناقابل تلافی نقصان کیا گیا‘

سوشل میڈیا پر ایک صارف منصور حیات نے سوال کی صورت میں ایک تجویز دی کہ ’زرعی زمین کو رہائشی منصوبہ بنانے کے خلاف کیا کوئی قانون نہیں ہونا چاہیے؟‘

اس پر صارف طارق خان کا کہنا تھا کہ اس وقت زرعی زمینوں اور باغات پر سوسائٹیز کی اجازت دے کر ’ناقابل تلافی نقصان کیا جا رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’ایک آم کا درخت پھل دینے کے لیے 15 سے 20سال لیتا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ پھل دیتا ہے، مقامی طور پر مزدور طبقے کے لیے روزگار کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ وہ ماحول کو بھی بہتر رکھتا ہے۔‘

ایک صارف کے مطابق ’اب ہزاروں ایکٹر پر آم کے درختوں کی کٹائی ہو گئی تو اس سے ماحولیات پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے جو کہ ممکنہ طور پر شدید ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بنے گا۔ اس سے آم کی فصل بھی متاثر ہوگی۔‘

صحافی زری جلیل ماحولیاتی مسائل پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جنوبی پنجاب میں ویسے بھی ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔

’اکثر و بیشتر سیلاب وغیرہ سے بہت زیادہ تباہی ہوتی ہے۔ لوگوں کا روزگار بھی متاثر ہو رہا ہے۔ اب اگر اتنی بڑی تعداد میں ملتان کے اندر درخت کٹیں گے تو اس کے بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘

ملتان مینگو گروور ایسوسی ایشن کے صدر طارق خان کا کہنا تھا کہ یہ ٹھیک ہے کہ اب رہائش اور گھروں کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ ’مگر اس کے ساتھ خوراک کی بھی ضرورت بڑھ رہی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’ہمیں دونوں چیزوں میں توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ زرعی زمینوں اور باغات والے مقامات پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کی اجازت نہ دے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’رہائشی مقاصد اور نئی سوسائٹیز کے لیے ایسی زمینیں استعمال ہوسکتی ہیں جو زراعت اور باغات کے استعمال کے قابل نہ ہوں۔۔۔ (یعنی) ایسی زمینیں جو بنجر اور ناقابل کاشت ہوں وہاں پر سوسائٹی بن سکتی ہیں تاکہ ہمارے سرسبز علاقوں کو نقصان نہ پہنچ سکے۔‘



Source: BBC Urdu



Comments...