Top Rated Posts ....

Bank Lockers Are No More Safe in Pakistan, Anchor Maria Memon's Jewellery Stolen From Bank Locker

Posted By: Saud Ali, September 14, 2021 | 16:55:08


Bank Lockers Are No More Safe in Pakistan, Anchor Maria Memon's Jewellery Stolen From Bank Locker




جب بھی بینک اور خاص طور پر اس کے لاکرز کا ذکر آتا ہے تو عمومی طور پر تحفظ کا احساس اور چیزوں کے محفوظ ہونے کا خیال آتا ہے۔ تحفظ کے اسی احساس کے تحت اکثر افراد اپنی زندگی کی جمع پونجی نہ صرف بینکوں میں جمع کراتے ہیں بلکہ زیورات اور قیمتی اشیا حتیٰ کہ اہم دستاویزات کو بھی بینک کے لاکر میں رکھتے ہیں۔

لیکن حال ہی میں پاکستانی سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے کچھ واقعات نے لوگوں کے اعتماد کو نہ صرف ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ یہ سوال بھی کھڑا کیا ہے کہ پاکستان کے بینکوں میں لاکرز کتنے محفوظ ہیں۔

اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا پاکستان کی معروف ٹی وی اینکر ماریہ میمن نے گذشہ برس وفات پانے والی اپنی والدہ کے نام پر موجود لاکر سے زیورات کے چوری ہونے کا دعویٰ کیا۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ماریہ میمن نے بتایا کہ بینک کے ریکارڈ میں موجود تفصیلات کے مطابق اُن کی والدہ نے یہ لاکر سنہ 2017 میں آپریٹ کیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’جوائنٹ لاکر ہولڈر کی صورت میں پہلا شک یہ کیا جاتا ہے کہ شاید دوسرے شخص یا پارٹی نے چیزیں نکال نہ لی ہوں یا گھر میں معاملات خراب ہوں لیکن الزام بینک پر عائد کیا جا رہا ہو۔ لیکن بینک کے ریکارڈ میں بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ میرے والد نے لاکر استعمال نہیں کیا اور میری والدہ نے ہی آخری بار اس لاکر کو سنہ 2017 کے آخر میں آپریٹ کیا تھا۔‘

ماریہ میمن کے مطابق بینک نے انھی ایک تحریری جواب بھیجا ہے کہ اس معاملے کی انکوائری مکمل کر لی گئی ہے اور کسی دھوکہ دہی کا ثبوت نہیں ملا۔

11 ستمبر کو ماریہ میمن نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں دعویٰ کیا تھا: ’یہ میرے خاندان کے ساتھ کچھ دن پہلے ہوا۔ برائے مہربانی اپنے لاکرز پر سخت چیک رکھیں۔ میری مرحوم والدہ کا سونا بینک سے چوری ہو گیا۔‘

’میری والدہ کا گذشتہ برس انتقال ہو گیا۔ انھوں نے اپنے مرنے سے پہلے میری بہن کو بینک کے لاکر میں موجود سونے کے بارے میں بتایا اور اسے ہدایات دیں کہ اس سونے کا کیا کرنا ہے۔ میری والدہ کے انتقال کے کچھ ہفتوں بعد میرے والد لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں موجود اس بینک کی برانچ میں جوائنٹ لاکر آپریٹ کرنے گئے۔ بینک کے کسٹمر سروس کے نمائندے اور مینجر نے میرے والد کو لاکر آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دی۔‘

’میرے والد کو حق وراثت کا سرٹیفیکیٹ لانے کا کہا گیا۔ غم میں مبتلا اور جذباتی طور پر تناؤ کا شکار میرے والد نے بینک کا یقین کر لیا۔‘

’میری بہن بیرون ملک تھی لہذا ہم نے یہ معاملہ بعد کے لیے چھوڑ دیا لیکن سنہ 2021 میں صرف اب سے صرف دو ہفتے پہلے ہمیں بتایا گیا کہ آپ اب لاکر آپریٹ کر سکتے ہیں۔‘

’میرے والد فوراً لاکر آپریٹ کرنے کے لیے گئے اور سوچیں پھر کیا ہوا۔ اس میں جیولری کا صرف ایک خالی ڈبہ تھا۔ ہماری والدہ کا سونا چوری کر لیا گیا تھا جس کی جذباتی قیمت ہمارے لیے بہت زیادہ تھی۔‘

’بینک نے ہماری درخواست پر ردعمل دیا ہے اور جیسے کہ امید تھی کہ ان کی پہلی کوشش خود کو بچانا ہے۔ بینک والوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہمیں گذشتہ برس لاکر تک رسائی دی جانی چاہیے تھی تاہم انھوں نے کسی دھوکہ دہی کی تردید کی ہے۔ اب ہم بینک کے خلاف کیس کا آغاز کر رہے ہیں۔‘

ماریہ کے مطابق ’امی کا سونا ملنے کے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن یہ میرا فرض ہے کہ میں دوسروں کو اس بارے میں خبردار کروں۔ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو کیا آپ واقعی بینک کو یہ ثابت کر سکیں گے کہ آپ کے لاکر میں قیمتی سامان موجود تھا۔ براہ مہربانی اپنے لاکر کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ جائیں اسے چیک کریں۔‘

ماریہ کی اس پوسٹ کے جواب میں بہت سے لوگوں نے اپنے ذاتی تجربات بیان کیے جنھیں مختلف نجی بینکوں سے ایسی ہی شکایات تھیں۔

ایک صارف نے ماریہ کی پوسٹ کے جواب میں دعویٰ کیا ’میرے والد کا سنہ 1998 میں انتقال ہو گیا۔ میری والدہ کو بتایا گیا کہ انھیں حق وراثت کا سرٹیفیکیٹ چاہیے۔ کئی مہینوں بعد جب میری والدہ کو سرٹیفیکیٹ ملا اور انھوں نے لاکر کھولا تو وہ خالی تھا۔ میرا خیال ہے ہم میں سے کئی لوگوں کو ایسے لوٹا گیا لیکن آپ نے اس بارے میں بات کی۔‘

ایک اور صارف نے دعویٰ کیا: ’میرے والد کا سنہ 2010 میں انتقال ہوا، سنہ 2011 میں وراثت کا سرٹیفیکیٹ ملنے کے بعد جب ہم نے لاکر کھولا تو جیولری، پرائز بانڈ، وہاں سے غائب تھے۔‘

ایک اور صارف نے بھی کچھ ایسی ہی کہانی سنائی کہ ’سنہ 2015 یا 2016 میں ان کی والدہ کے لاکر سے جیولری غائب ہو گئی۔ ہم نے اپنی کھوئی چیزوں کا تعاقب کیا لیکن بینک نے نہ ہماری درخواست کو تسلیم کیا اور نہ ہی کوئی ذمہ داری لی۔ جب کہ اس چوری سے پہلے بینک میں جو لوگ موجود تھے وہ بھی ادھر نہیں تھے، جب ہمیں خالی لاکر ملا، ان کی ٹرانسفر کہیں اور کر دی گئی تھی۔ میرے خیال میں لاکر میں سونے کی 12 چوڑیاں، ایک چوڑا سیٹ، ایک چھوٹا ہار، کچھ انگوٹھیاں اور جھمکے تھے، جو کبھی برآمد نہیں ہو سکے کیونکہ لاکر کی انشورنس نہیں تھی اور ہمیں لاکر کی انشورنس کا پتہ بھی نہیں تھا۔‘

ایک اور صارف نے اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا ’میں نے دسمبر 2020 میں کووڈ کی وجہ سے اپنے والدین کو کھو دیا اور اس کے فوراً بعد ہم نے حق وراثت کا عمل شروع کر دیا۔ میری والدہ کے ایک ہی بینک کی مختلف برانچز میں دو لاکر تھے۔ جب میرا بھائی ایک بینک میں گیا تو مینجر نے کہا کہ آپ کے والدین کے نام سے کوئی لاکر نہیں کیونکہ کمپیوٹر ریکارڈ میں کچھ سامنے نہیں آ رہا تھا جبکہ ہمارے پاس دونوں لاکرز کی چابیاں تھیں، اور اس کے علاوہ ماضی میں اپنی والدہ کے ساتھ وہاں جا کر لاکر آپریٹ بھی کر چکی تھی۔‘

’انھوں نے میرے بھائی کو واپس بھیج دیا اور اگلے روز میں اپنے بھائی کے ساتھ گئی اور بینک والوں سے پوچھا کہ اگر میرے والدین کے نام پر کوئی لاکر نہیں تو میرے پاس یہ چابی کہاس سے آئی۔ تو بے شرم مینجر نے کہا کہ ’یہ تو آپ اپنے ماں باپ سے پوچھیں۔‘ ان کی آواز میں مرنے والوں کے لیے کوئی عزت نہیں تھی۔ میں نے بینک مینجر کو مجبور کیا کہ وہ رجسٹر میں چیک کریں کہ لاکر کس کے نام ہے۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی رجسٹر کھولا اور وہاں میرے والدین کے نام درج تھے۔ وہ ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوا۔‘

پاکستانی بینکوں میں لاکرز کی حفاظت کا کیا طریقہ کار ہے؟

پاکستانی بینکوں میں لاکرز کھولنے کے لیے بینکاری اور مالیاتی شعبے کے ریگولیٹر نے بینکوں کو مختلف ہدایات اور رہنما اصول جاری کر رکھے ہیں جن کے تحت بینکوں میں لاکرز کھولے جا سکتے ہیں۔ بینکوں میں کھولے جانے والے لاکرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بھی مرکزی بینک نے کچھ قواعد و ضوابط جاری کیے ہیں جس کے تحت لاکرز اور ان میں رکھی ہوئی قیمتی چیزوں کی حفاطت کو یقینی بنایا جا سکے۔

ایک مقامی بینک میں کچھ عرصہ قبل کام کرنے والے راشد مسعود عالم نے بتایا کہ ایک بینک کی ہر برانچ میں لاکرز کی سہولت میبسر نہیں ہوتی۔ ہر بینک کی مخصوص برانچوں میں یہ لاکرز ہوتے ہیں جنھیں مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں آپریٹ کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے بی بی سی اُردو کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق بینکوں کو پابند کیا گیا ہے کہ اپنی ان برانچوں میں جہاں پر لاکرز کی سہولت میبسر ہے وہاں اُن کی حفاظت کو صحیح طریقے سے یقینی بنایا جائے تاکہ ان میں موجود قیمتی چیزوں کو تحفظ دیا جا سکے۔

ان ہدایات میں لاکرز روم سے لے کر وہاں آمدروفت اور لاکرز میں چیزیں رکھنے سے لے کر سکیورٹی گارڈز کی تعیناتی تک کے سارے اُمور شامل ہیں۔

راشد مسعود نے بتایا کہ بینک میں لاکر کھولنے کے بعد اس کی دو چابیاں ہوتی ہیں۔ ایک چابی بینک کے پاس موجود ہوتی اور دوسری اس شخص کے نام پر جس کے نام پر لاکر ہوتا ہے۔ جب گاہک کوئی قیمتی چیز رکھوانے کے لیے لاکر روم میں جاتا ہے تو بینک کے عملے کا رکن اپنی چابی سے لاکر کھول کر چلا جاتا ہے اور اس کے بعد کلائنٹ اپنی چابی لگا کر اسے کھول کر اپنے قیمتی چیز رکھ دیتا ہے۔ دوبارہ لاکر کھولنے کے لیے جب وہ آتا ہے تو باقاعدہ ایک پوری تصدیق کے طریقہ کار سے گزرنے کے بعد اسے لاکر تک رسائی دی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ بینک کے پاس موجود چابی اور کلائنٹ کی چابی کے بیک وقت لگانے سے لاکر کھلتا ہے۔ انھوں نے اس امکان کو مسترد کیا کہ بینک کے پاس کسی صارف کی ڈپلیکیٹ چابی بھی ہو سکتی ہے۔

لاکرز سے چوری کیسے ہو جاتی ہے؟

سٹیٹ بینک کی جانب سے لاکرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے جاری کی گئی ہدایات اور بینکوں کی جانب سے حفاظتی اقدامات اٹھانے کے باوجود بینک لاکرز کیسے ٹوٹ جاتے ہیں یا ان میں موجود قیمتی چیزوں کی چوری کیسے کر لی جاتی ہے اس کے بارے میں راشد مسعود کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف اسی وقت ممکن ہے کہ جب بینک کا عملہ اور سکیورٹی سٹاف اس میں ملوث ہو۔‘

ان کے مطابق بینکوں میں لاکرز ٹوٹنے اور ان میں رکھی قیمتی اشیا کی چوری کے واقعات اکثر ہفتے اور اتوار کو رونما ہوتے ہیں کیونکہ جمعہ کی رات سے لے کر سوموار کی صبح تک دو دن میں یہ کام کیا جاتا ہے کیونکہ لاکرز کو کاٹنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے تاہم یہ بھی اس وقت ممکن ہے جب بینک عملہ اور سکیورٹی سٹاف اس میں ملوث ہو۔

راشد مسعود نے بتایا کہ یہ صحیح بات ہے کہ بینکوں کے عملے کی مدد سے یہ کارروائی کی جاتی ہے وگرنہ لاکرز توڑنا ممکن نہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایک بینک کی ان برانچوں کو مرکزی نگرانی کے نظام سے منسلک نہیں کیا جا سکتا تو انھوں نے کہا فی الحال ایسا ممکن نہیں کیونکہ لاتعداد بینکوں میں لاکرز موجود ہیں اور ان کی نگرانی ایک مرکزی نظام سے نہیں ہو سکتی۔

لاکرز سے چوری کی صورت میں بینک کی جانب سے تلافی کیسے کی جاتی ہے؟

لاکرز توڑ کر اس میں موجود قیمتی چیزوں کی چوری کی صورت میں بینک صارف کے نقصان کی تلافی کیسے کرتا ہے اس بارے میں سٹیٹ بینک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ لاکر میں جو کچھ رکھا جاتا ہے وہ کلائنٹ کی جانب سے ظاہر نہیں کیا جاتا کہ وہ اس میں میں کیا رکھ رہا ہے۔ تاہم لاکر ایک کی ایک خاص حد تک انشورنس کوریج ہوتی ہے اور اس میں چوری کی صورت میں کلائنٹ کو اس کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

راشد مسعود نے بتایا کہ انشورنش کی رقم بڑے اور چھوٹے لاکرز کے حساب سے مختلف ہوتی ہے۔ ان کے مطابق بڑے لاکر پر تقریباً دس لاکھ روپے تک انشورنس ہوتی ہے اور چھوٹے پر اس کی حد پانچ لاکھ روپے کی رقم تک ہوتی ہے۔

قانون کے شعبے سے وابستہ اور مالیاتی و تجارتی کیسوں کے ماہر عمیر نثار ایڈوکیٹ نے بتایا کہ لاکر کھولنے پر دو قسم کی انشورنس ہوتی ہے۔ ایک لازمی اور دوسری اختیاری۔

انھوں نے کہا کہ لاکر کھلتے ہوئے لازمی انشورنس کا اطلاق تو فوراً ہو جاتا ہے تاہم اگر صارف سمجھتا ہے کہ اس کی جانب سے لاکر میں رکھی جانے والی چیزوں کی مالیت بہت زیادہ ہے تو وہ اختیاری انشورنس بھی لے سکتا ہے جس کے لیے اسے پریمیئم ادا کرنا پڑے گا۔

عمیر نے بتایا کہ بینکوں میں کھولے جانے والے لاکرز کی بیشتر لازمی انشورنس ہی ہوتی ہے اور بہت ہی کم لوگ اختیاری انشورنس کرواتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی قیمتی چیزوں کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔

’لاکر میں سونا، فارن کرنسی اور دوسرے قیمتی جواہرات رکھے جاتے ہیں اور اختیاری انشورنس کی صورت میں انھیں یہ سب ظاہر کرنا پڑے گا اور اپنے ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کرنا پڑے گا۔ ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے لیے لوگ ان چیزوں کو اکثر اوقات ڈیکلیئر نہیں کرتے۔‘

تلافی نہ ہونے کی صورت میں کیا قانونی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے؟

سٹیٹ بینک کے ترجمان نے اس سلسلے میں کہا کہ لاکرز سے چوری ایک پولیس کیس ہے۔

لاکر ٹوٹنے یا اس میں چوری کی صورت میں ایک خاص انشورنس کی رقم کی ادائیگی تو کلائنٹ اور بینک کا آپس کا معاملہ ہے کہ جو لاکر کھولنے کے لیے معاہدے کے تحت طے پایا جاتا ہے۔ اگر بینک کلائنٹ کو انشورنس نہیں دیتا تو اس صورت میں وہ سٹیٹ بینک کے شعبہ تحفظ صارف سے رجوع کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بینکاری شعبے کے محتسب سے بھی اس سلسلے میں رجوع کیا جا سکتا ہے۔

عمیر نثار نے اس سلسلے میں کہا کہ جب بھی کوئی ایسی واردات ہوتی ہے تو بینک لازمی انشورنس کے تحت اپنے کلائنٹ کو رقم کی ادائیگی کا پابند ہے تاہم اگر کلائنٹ سمجھتا ہے کہ لاکر سے چوری کی گئی چیزوں کی مالیت بہت زیادہ ہے اور اسے زیادہ انشورنس کی رقم ملنی چاہیے تو وہ بینکنگ کورٹ میں کیس داخل کر سکتا ہے تاہم سب سے بڑی رکاوٹ یہی درپیش آتی ہے کہ کلائنٹ کیسے ثابت کرے گا کہ جتنی مالیت کا وہ دعویٰ کر رہا ہے وہ واقعی لاکر میں موجود تھی۔

انھوں نے کہا کیونکہ اکثر افراد لاکر کھلواتے وقت اس میں رکھی جانے والی چیزوں کو ڈکلیئر نہیں کرتے اور اختیاری انشورنس نہیں لیتے، اس لیے ان کے لیے بڑی مالیت کا دعویٰ جمع کرانا اور اس کی بنیاد پر چوری کی گئی چیزوں کی مالیت کے برابر رقم حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور ان کے یہ دعوے اکثر مسترد ہو جاتے ہیں۔



Source: BBC Urdu




Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...