Top Rated Posts ....

Why Malala Suddenly Got Married, Where She Met Asser? Malala Explains In Her Latest Article

Posted By: Saud Ali, November 12, 2021 | 08:09:47


Why Malala Suddenly Got Married, Where She Met Asser? Malala Explains In Her Latest Article




ملالہ کا برطانوی فیشن میگزین ووگ میں مضمون: ’میں شادی کے خلاف نہیں تھی مگر اس حوالے سے میرے کچھ تحفظات تھے‘

ویسے تو نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی جانب سے دیا جانے والا لگ بھگ ہر بیان ہی پاکستان میں موضوع بحث بن جاتا ہے مگر چار روز قبل جب انھوں نے عصر ملک سے اپنے نکاح کی خبر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پوسٹ کی تو جیسے ایک ہنگامہ ہی برپا ہو گیا۔

اور جیسا کہ ہر معاملے میں اُن پر کی جانے والی تنقید، آرا اور تبصروں کا بنیادی حصہ بن جاتی ہے تو یہی کچھ ان کے نکاح کے معاملے میں ہوا جسے انھوں نے ’اپنی زندگی کا بیش قیمت دن‘ قرار دیا۔

تنقید کا بنیادی پہلو ان کا برطانوی فیشن میگزین ووگ کو جون 2021 میں دیے جانے والا انٹرویو تھا جس میں انھوں نے اپنی شادی سے متعلق کیے گئے سوال پر کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے اب یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اپنی زندگی کا ساتھی چاہیے تو آپ کو شادی کے کاغذات پر دستخط کیوں کرنے ہیں۔۔۔‘

ان کے اسی انٹرویو کے پس منظر میں پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین نے ان پر تنقید کی اور ان کے پرانے بیان اور پھر شادی کی خبر کا موازنہ کرتے نظر آئے۔

تاہم بظاہر اسی نوعیت کی شدید تنقید کا جواب دینے کے لیے ملالہ نے ایک مرتبہ پھر برطانوی فیشن میگزین ووگ کا انتخاب کیا اور شادی کے حوالے سے ایک تفصیلی آرٹیکل اسی میگزین میں لکھا۔

اس آرٹیکل میں انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ عصر ملک سے کیسے ملیں اور ان کی شادی کا جوڑا اور جیولری کہاں سے آئی۔

’میں شادی کے خلاف نہیں تھی مگر اس حوالے سے میرے کچھ تحفظات تھے‘
’میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔ کم از کم اس وقت تک نہیں جب تک میں 35 سال کی نہ ہو جاؤں۔‘

گذشتہ کئی برسوں میں جب بھی مجھ سے رشتے سے متعلق سوال ہوا تو میں نے ردعمل میں خود کو لاشعوری طور پر یہی الفاظ دہراتے سُنا، ملالہ نے ووگ میں لکھے گئے اپنے مضمون کی ابتدا کچھ یوں کی۔

انھوں نے لکھا کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ شادی کے خلاف تھیں لیکن رشتہ ازدواج سے متعلق ان کو چند تحفظات ضرور تھے۔

ان تحفظات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ ’شادی کے بعد خواتین سے سمجھوتہ کرنے کی توقع، دنیا کے مختلف حصوں میں عورت مخالف رویے، قوانین پر ثقافت کے گہرے اثرات اور پدرانہ جڑیں مجھے معاشرے میں اس رشتے کے موجودہ رواج پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتے تھے۔‘

وہ لکھتی ہیں کہ ’اس خوف سے کہ کہیں میں اس رشتے میں بندھ کر اپنی آزادی، انسانیت اور نسوانیت نہ کھو دوں مجھے یہی درست لگا کہ شادی کے جھنجھٹ سے فی الحال آزاد رہا جائے۔‘

اور یہ تحفظات اور خدشات بلاوجہ نہیں تھے کیونکہ ملالہ نے لکھا ’گرلز ناٹ برائیڈز‘ کے مطابق ہر سال اٹھارہ سال سے کم عمر ایک کروڑ بیس لاکھ لڑکیاں رشتہ ازدواج میں منسلک کر دی جاتی ہیں لیکن ایسی لڑکیوں کی اکثریت کے لیے یہ ایک پارٹنر شپ نہیں بلکہ غلامی ہوتی ہے۔

ملالہ نے ووگ میں مزید لکھا کہ ’پاکستان کے جس علاقے میں میری پرورش ہوئی وہاں لڑکیوں کو یہی سکھایا جاتا ہے کہ شادی ایک آزاد زندگی کا متبادل ہے۔ اگر آپ پڑھائی نہیں کر رہے، یا اپنا کیریئر نہیں بنا رہے یا امتحانات میں فیل ہو رہے ہیں تو ان تمام مسائل کا حل یہی بتایا جاتا تھا کہ جلدی سے لڑکی کی شادی کر دی جائے۔‘

اس کے بعد ملالہ نے پاکستان میں اپنی زندگی سے کچھ مثالیں پیش کیں کہ کیسے ان کے ساتھ سکول جانے والی نوعمر لڑکیوں کی شادیاں کر دی گئیں جس کے باعث ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔

’ایسی بچیوں کے لیے شادی کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں شادی کے سوا کچھ نہیں کر پائیں۔ ان کی عمر سکول جانے کی ہے لیکن وہ جانتی ہیں کہ اب انھیں اپنے خوابوں کو حقیقیت کا روپ دینے کا موقع کبھی نہیں ملے گا۔‘

انھوں نے وضاحت کی کہ اسی لیے جب برطانوی فیشن میگزین ووگ کے انٹرویو کے دوران ان سے شادی کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے وہی جواب دیا جو وہ اس سے پہلے دیتی آئی تھیں کیونکہ ان کے مطابق اس وقت انھیں ایسا لگتا تھا کہ شاید شادی کا رشتہ ان کے لیے لیے نہیں۔

انھوں نے مزید لکھا ’لیکن تعلیم اور آگہی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بااختیار ہو کر ہم اپنے رشتوں اور خصوصاً رشتہ ازدواج کو نئے معنی دے سکتے ہیں۔ تہذیب اور ثقافت کو بنانے والے انسان ہی ہوتے ہیں اور وہ چاہیں تو انھیں تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ اس بارے میں جب میری اپنے اساتذہ اور دوستوں کے ساتھ ساتھ میرے نئے ساتھی عصر سے گفتگو ہوئی تو مجھے آہستہ آہستہ یہ احساس ہوا کہ شادی کے رشتے میں رہتے ہوئے بھی میں انصاف اور مساوات کی بنیادی اقدار کا تحفظ کر سکتی ہوں۔‘

ملالہ اور عصر ملک کی ملاقات کیسے اور کہاں ہوئی؟

ملالہ نے اس آرٹیکل میں لکھا کہ اُن کی اور عصر کی پہلی ملاقات سنہ 2018 میں اس وقت ہوئی جب عصر اپنے دوستوں سے ملنے آکسفورڈ آئے ہوئے تھے ’کیونکہ عصر کا تعلق کرکٹ سے تھا اس لیے ان سے گفتگو کے لیے بہت سی باتیں تھیں۔‘

ملالہ کے مطابق عصر کو ان کی حسِ مزاح بہت بھائی اور ان دونوں کی دوستی ہو گئی۔

’ہم میں بہت سی قدریں مشترک تھیں اور ہم ایک دوسرے کی کمپنی سے محظوظ ہوتے تھے۔ ہم نے خوشی اور مایوسی کے بہت سے لمحات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ اپنی اپنی زندگیوں کے اتار چڑھاو میں ہم نے آپس میں بہت سے دکھ سکھ بانٹے۔‘

نکاح کا جوڑا

ووگ میگزین کے اپنے آرٹیکل میں انھوں نے لکھا کہ نو نومبر کو ان کا نکاح نہایت سادگی سے ہوا جس میں گنے چنے لوگ ہی شامل تھے۔

نکاح کے لیے جوڑا ان کی امی اور ان کی سہیلی نے لاہور سے تیار کروایا جب کہ زیور عصر کی والدہ اور بہن کی جانب سے دیے گئے تھے۔

’نکاح سے پہلے میں نے عصر کے ساتھ جا کر اس کے سوٹ کے ساتھ کی پنک ٹائی اور رومال کے ساتھ ساتھ اپنے سینڈل بھی خریدے۔اپنے ہاتھوں پر مجھے خود ہی مہندی لگانی پڑی کیونکہ اپنے ارد گرد موجود خاندان اور دوستوں میں سے کسی اور کو یہ کرنا نہیں آتا تھا۔‘

’کھانے اور ڈیکوریشن کا انتظام میرے والد نے کیا تھا جب کہ فوٹوگرافی اور میک اپ کے لیے میری ٹیم نے بندوبست کیا۔ سکول اور آکسفورڈ سے میرے تین بہترین دوستوں نے نکاح میں شمولیت کے لیے چھٹی لی۔‘



Source: BBC Urdu



Comments...