Top Rated Posts ....

Parizaad drama aur hamary art per musallat karda ghuttan

Posted By: Muzamil, November 26, 2021 | 09:08:28


Parizaad drama aur hamary art per musallat karda ghuttan




پری زاد ڈرامہ اور ہمارے آرٹ پر مسلط کردہ گھٹن

تحریر ۔۔۔ آر فاروق

طویل عرصے بعد پاکستانی ڈرامہ پری زاد دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ پاکستانی ڈرامے اور فلمیں میں اس لئے نہیں دیکھتا کیونکہ میری رائے میں جس معاشرے میں ادب اور آرٹ پر بہت زیادہ پابندیاں ہوں، وہاں تخلیقی صلاحیتیں جنم نہیں لے سکتیں۔ اس کا عکس آپ کو پاکستانی ڈراموں اور فلموں میں جا بجا نظر آتا ہے۔ پری ذاد ڈرامہ دیکھنے پر بھی مجھے یہی احساس ہوا۔ ڈرامہ بہت اچھا لگا، سٹوری بہت اچھی لگی، مگر پاکستانی آرٹ پر مسلط گھٹن نے ڈرامے میں بہت سی کجیاں چھوڑ دیں۔ ایک مصنف، ادیب، ڈرامہ نگار کا فن یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی تصنیف، اپنے ڈرامے، اپنی فلم میں حقیقت کا رنگ بھر دے۔ دیکھنے والوں کو کہیں سے نہ لگے کہ یہ کوئی مصنوعی منظر نگاری اور اداکاری پیش کی جارہی ہے۔

پری زاد ڈرامے میں مجھے جو چند کمیاں نظر آئیں، ان کا تعلق بھی ہمارے معاشرے پر مسلط کی گئی مصنوعی پارسائی سے ہے۔ مثلاً کئی اقساط تک تو میں لیلیٰ صبا کو بہروز سیٹھ کی بیٹی سمجھتا رہا اور بہت دیر میں جاکر مجھے پتا چلا کہ وہ بہروز سیٹھ کی بیٹی نہیں بلکہ بیوی ہے۔ بھئی جب آپ میاں بیوی کے درمیان افیکشن ، محبت یا رومانس کا کوئی سین ہی نہیں دکھائیں گے تو دیکھنے والے کو کیسے احساس ہوگا کہ ان کا رشتہ کیا ہے۔ فلم اور ڈرامہ تو وہ ہوتا ہے جو جذبات کے راستے آپ کے اندر اتر جائے، آپ بھلے ویڈیو کو میوٹ کرکے دیکھیں، یا فلم / ڈرامہ کسی انجان زبان میں ہو، مگر دیکھنے والے کو مناظر سے ہی اپنی گرفت میں لے لے۔ مگر یہاں تو حال یہ ہے کہ پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ لیلیٰ صبا بہروز سیٹھ کی بیٹی ہے یا بیوی۔ ان دونوں کے درمیان تو اتنا فاصلہ رکھا گیا کہ کہیں غلطی سے ایک دوسرے کے قریب نہ آجائیں اور ایک دوسرے کو چھو نہ لیں۔

ڈرامے میں ایک اور بہت بڑی کمی مجھے یہ نظر آئی کہ جب بہروز سیٹھ اپنی بیوی لیلیٰ صبا کو قتل کردیتا ہے، اس کے بعد وہ غم کے دور میں چلا جاتا ہے ، اپنے کاروبار اور دیگر معاملات سے لاتعلق ہوجاتا ہے اور ہر وقت اپنی بیوی کو یاد کرتا رہتا ہے، اب یہاں کردار اور حالات و واقعات کا تقاضا تھا کہ بہروز سیٹھ کو شراب پیتے ہوئے دکھایا جاتا، یہ حقیقت سے بہت قریب تر لگتا ۔ پاکستان میں بڑے کاروباری لوگوں کا ڈرنک کرنا عام بات ہے، اور اگر کردار کسی ایسے مالدار شخص کا ہو جو جرائم پیشہ سرگرمیوں میں بھی ملوث ہو تو وہاں تو حقیقی منظر نگاری کیلئے یہ ازحد ضروری ہے کہ اس کردار کو شراب کے نشے میں مدغم دکھایا جائے۔ یہاں ڈرامہ نگار نے بہروز سیٹھ کو غم میں مدہوش تو ضرور دکھایا، مگر صرف سگریٹ اور سگار کے سہارے پر۔ بیچارا بہروز سیٹھ سگار پی پی کر ہی غمزدہ اور زندگی سے بیزار ہونے کی اداکاری کرتا رہا۔ یہ منظر نگاری بالکل کھوکھلی لگی۔ جب آپ آرٹ پر اتنی پابندیاں لگا دیں گے کہ کسی کردار کو بھی شراب پیتا نہیں دکھایا جاسکتا تو ایسے میں تخلیق کار کیا خاک اپنی صلاحیتیں دکھائیں گے۔۔۔

میرے خیال میں پاکستانی ادیبوں، اداکاروں، ڈرامہ نگاروں اور فلم سازوں کو اس پر آواز اٹھانی چاہئے۔ آپ کیسے اتنی گھٹن میں کوئی اچھی فلم یا ڈرامہ پروڈیوس کرسکتے ہیں۔ انڈیا اپنی فلم انڈسٹری بالی ووڈ کے ذریعے اربوں ڈالر کا سرمایہ کمارہا ہے اور ہالی ووڈ کا تو خیر مقابلہ ہی کوئی نہیں۔ مگر پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کا حال یہ کردیا گیا ہے کہ کسی شمار یا قطار میں ہی نہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری بھی کسی قابل ہو تو اپنے فنکاروں اور تخلیق کاروں کو آزادی دیں۔ لوگوں کے پاس چوائس ہے، وہ اگر کوئی ڈرامہ نہیں دیکھنا چاہتے تو وہ نہیں دیکھیں گے، مگر پابندیوں سے آپ اپنی انڈسٹری کو پروان نہیں چڑھا سکتے۔



Comments...