Top Rated Posts ....

Rawalpindi court sentenced woman to death for 'blasphemous' WhatsApp status

Posted By: Muzaffar, January 19, 2022 | 16:31:55


Rawalpindi court sentenced woman to death for 'blasphemous' WhatsApp status




توہین رسالت پر مبنی میسج بھیجنے کا الزام: خاتون کو سزائے موت

پاکستان کے شہر راولپنڈی میں ایف آئی اے کی ایک خصوصی عدالت نے توہین رسالت پر مبنی پیغام بھیجنے کے جرم میں انیقہ عتیق نامی شہری کو موت کی سزا سنائی ہے۔

ان کے خلاف یہ مقدمہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ راولپنڈی میں سنہ 2020 میں حسنات فاروق نامی شخص کی مدعیت میں درج کروایا گیا تھا۔

مقدمے میں توہین رسالت، توہین مذہب اور انسداد سائبر کرائم ایکٹ کی متعلقہ دفعات درج تھیں۔

مجرمہ کو آئین کی دفعہ 295/سی کے تحت سزائے موت اور 50 ہزار روپے جرمانہ، 295 اے کے تحت 10 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ، 298 اے کے تحت تین سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ اور سائبر کرائم کے پیکا ایکٹ کے سیکشن 11 کے تحت سات سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مجرمہ کو مزید چھ ماہ قید بھگتنا ہو گی۔

واضح رہے کہ جب اس مقدمے میں مجرمہ پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی تو انھوں نے اس جرم کے ارتکاب سے انکار کیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ان تمام سزاؤں پر عمل درآمد ایک ہی وقت میں شروع ہو گا۔

واقعے کی تفصیلات

اس مقدمے سے منسلک ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ مجرمہ انیقہ عتیق اسلام آباد کی رہائشی ہیں اور ان کا روالپنڈی کے رہائشی حسنات فاروق کے ساتھ تعلق تھا۔

انھوں نے بتایا کہ کسی معاملے پر ان دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا جس پر غصے میں آ کر مجرمہ نے توہین آمیز الفاظ لکھ کر حسنات فاروق کو واٹس ایپ کیے تھے۔

اہلکار کے مطابق حسنات فاروق نے جس کی مدعیت میں یہ مقدمہ درج کیا گیا ہے مجرمہ کو ایسے توہین آمیز الفاظ کو ڈیلیٹ کرنے اور اس پر معذرت کرنے کے بارے میں کہا جس پر ایف آئی اے کے اہلکار کے بقول مجرمہ نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا۔

ایف آئی اے کے اہلکار کا کہنا تھا کہ انیقہ عتیق ایک نجی ادارے میں کام کرتی تھیں اور جب انھوں نے مدعی مقدمہ کی درخواست پر عمل درآمد نہ کیا تو حسنات فاروق یہ معاملہ لے کر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ آئے۔

انھوں نے کہا کہ مذکورہ شخص کی درخواست پر مئی سنہ 2020 میں مقدمہ درج کر کے ملزمہ کو حراست میں لیا گیا اور ان کے زیر استعمال موبائل کا فرانزک بھی کروایا گیا جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ توہین آمیز پیغامات ملزمہ کے موبائل سے ہی بھیجے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ اس مقدمے کی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ توہین آمیز پیغامات بھیجنے میں ملزمہ خود ہی ملوث ہیں اور انھیں ایسا کرنے پر کسی کے اکسانے سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

اہلکار کے مطابق مجرمہ اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں اور فیصلہ سنانے کے لیے انھیں سخت سکیورٹی میں عدالت لایا گیا تھا اور فیصلے سنانے کے بعد مجرمہ کو سخت سکیورٹی کے حصار میں واپس اڈیالہ جیل لے جایا گیا۔



Source: BBC Urdu



Comments...