Copyright Policy Privacy Policy Contact Us Instagram Facebook
Top Rated Posts ....
Pak India conflict: Deputy PM Ishaq Dar and DG ISPR's important press conference Pak India conflict: Deputy PM Ishaq Dar and DG ISPR's important press conference Breaking News: Indian Rafale jets flied in Occupied Kashmir tonight Breaking News: Indian Rafale jets flied in Occupied Kashmir tonight Muhammad Malick's comments on Pak India conflict Muhammad Malick's comments on Pak India conflict Telegram leaked document exposes RAW’s role in Pahalgam false flag Operation Telegram leaked document exposes RAW’s role in Pahalgam false flag Operation Asad Umar shares an incident of Imran Khan's superstition Asad Umar shares an incident of Imran Khan's superstition Pak-India Tensions: Sirens Installed In 29 Districts Of Khyber Pakhtunkhwa Pak-India Tensions: Sirens Installed In 29 Districts Of Khyber Pakhtunkhwa

New DG ISI Lt. General Nadeem Anjum orders ISI officials to stay away from politics


آئی ایس آئی ملازمین کو سختی سے سیاست سے دور رہنے کا حکم

اسلام آباد (تبصرہ ،انصار عباسی) بڑی پیشرفت یہ ہے کہ ملک کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے ملازمین کو سختی سے سیاست سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے آئی ایس آئی کے تمام ملازمین پر واضح کر دیا ہے کہ سیاست یا سیاسی معاملات میں کسی طرح کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔

کہا جاتا ہے کہ اپنی آمد کے ساتھ ہی آئی ایس آئی کے سربراہ نے ادارے کے تمام ملازمین کو اپنی سوچ سے آگاہ کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے دفاع کی پہلی حد سمجھے جانے والا ادارہ آئی ایس آئی ماضی میں تنازعات کا محور رہا ہے کیونکہ اسے سیاسی معاملات میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور میڈیا میں اس ایجنسی پر بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے۔ حالانکہ ملک کے دفاع اور سیکورٹی کے معاملات میں اس ادارے کی کارکردگی شاندار ہے لیکن اس کے سیاست میں غیر مجاز کردار نے اس کی شہرت کو داغ دار کر دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ موجودہ آئی ایس آئی چیف نے عہدہ سنبھالتے ہی فیصلہ کیا ہے کہ ادارے کو سیاست سے دور رکھا جائے گا تاکہ غیر ضروری تنازعات سے بچ کر صرف اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھی جا سکے۔

رابطہ کرنے پر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب نے کہا کہ انہیں اس پیشرفت کے حوالے سے براہِ راست علم نہیں ہے لیکن موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی کے پروفائل اور ان کے ماضی کے ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ ایسی ہدایات ہی جاری ہونا تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی غیر سیاسی شخصیت ہیں، ماضی میں ایجنسی جن تنازعات کا سامنا کرتی رہی ہے انہیں دیکھتے ہوئے یہ اچھا فیصلہ ہے کہ ادارے کو سیاست سے دور رکھا جائے۔

حالیہ ماضی میں کچھ سیاسی رہنمائوں نے شکایت کی ہے کہ آئی ایس آئی کے کچھ ملازمین سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ایجنسی کو بار بار استعمال کیا جاتا رہا ہے، زیادہ تر معاملات میں آمروں نے اس ایجنسی کو سیاسی جوڑ توڑ، سیاسی جماعتوں کو توڑنے اور بنانے اور حکومتیں بنانے کے معاملے میں استعمال کیا ہے۔

اسی وجہ سے مستقلاً یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ ایجنسی کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے اور اس کے سیاسی کردار کو ختم کیا جائے۔ حالیہ برسوں میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی کچھ سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں نے شکایت کی ہے کہ ایجنسی سیاست میں مداخلت کر رہی ہے۔

اسی اخبار میں یہ خبر شائع ہو چکی ہے کہ بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی کے بعد، لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے تمام متعلقہ حلقوں کو بتا دیا ہے کہ کسی بھی سرکاری اجلاس کے دوران کھینچی گئی اُن کی تصاویر یا بنائی گئی ویڈیو میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) میں جاری نہ کی جائے۔ اگرچہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی کی سوچ اور ان کے اقدامات ادارے کو غیر ضروری تنازعات میں گھسیٹے جانے سے روک پائیں گے لیکن یہ واضح نہیں کہ مستقبل میں یہی سوچ مستقل رویہ اختیار کرے گی یا نہیں۔

تقریباً تین دہائیوں سے بھی زیادہ پیچھے جائیں تو اُس وقت کی بینظیر بھٹو حکومت کی جانب سے اعلیٰ سطح کا ایک کمیشن ’’ایئر چیف مارشل ذوالفقار خان کمیشن‘‘ تشکیل دیا گیا تھا تاکہ ایجنسیوں کی نگرانی کا ایک میکنزم تشکیل دیا جا سکے لیکن کوئی حکومت اس کمیشن کی سفارشات پر عمل کرانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔

نگرانی کے میکنزم کی غیر موجودگی میں ماضی میں یہ ایجنسیاں سیاست میں ملوث رہی ہیں اور حکومتیں اور سیاسی جماعتوں کی جوڑ توڑ میں مصروف رہی ہیں۔ ایئر چیف مارشل ذوالفقار خان کمیشن نے سفارش کی تھی کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں بشمول آئی ایس آئی اور آئی بی کیلئے دو سطحوں (Two-Tier) پر مشتمل ایک نگرانی میکنزم بنایا جائے۔ لیکن اس میکنزم پر عمل نہ ہو سکا۔

کمیشن نے سفارش کی تھی کہ وزیر اعظم کی قیادت میں نیشنل سیکورٹی کونسل تشکیل دی جائے اور جوائنٹ انٹیلی جنس کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے اپنے قانونی دائرہ کار میں رہ کر کام کر سکیں۔


Source





Advertisement





Popular Posts Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Comments...