Top Rated Posts ....

US man who got first pig heart transplant dies after two months

Posted By: Faisal , March 12, 2022 | 16:06:25


US man who got first pig heart transplant dies after two months




اعضا کی پیوند کاری: جس شخص کو سؤر کا جینیاتی طور پر تبدیل شدہ دل لگایا گیا تھا ان کی موت واقع ہو گئی

دنیا میں پہلی مرتبہ جس امریکی شہری کو ہارٹ ٹرانسپلانٹ (دل کی پیوند کاری) کے ذریعے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ سؤر کا دل لگا گیا تھا، اُن کی موت واقع ہو گئی ہے۔

امریکہ سے تعلق رکھنے والے 57 سالہ ڈیوڈ بینیٹ دل کے مستقل عارضے میں مبتلا تھے اور دو ماہ قبل ان کی سرجری کی گئی تھی تاہم جنوری میں اس تاریخی سرجری کے دو ماہ بعد اُن کی وفات ہو گئی ہے۔

تاہم بالٹیمور میں اُن کے ڈاکٹر کے مطابق اُن کی صحت گذشتہ کئی روز سے خراب تھی اور بلآخر آٹھ مارچ کو اُن کی موت واقع ہو گئی۔

بینیٹ کو اس سرجری کے خطرات کے بارے میں معلوم تھا اور انھوں نے آپریشن سے قبل کہا تھا کہ انھیں معلوم ہے کہ ’یہ اندھیرے میں تیر چلانے جیسا ہے، لیکن میرے پاس آخری حل یہ ہی ہے۔‘

ڈاکٹروں نے اس سرجری کے لیے امریکی میڈیکل ریگولیٹر سے یہ کہتے ہوئے خصوصی اجازت لی تھی کہ اگر یہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ نہ کیا گیا تو بینیٹ کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ بینیٹ کی خرابی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو انسانی دل کے ٹرانسپلانٹ کے لیے ’غیر موزوں امیدوار‘ قرار دیا گیا تھا جس کے بعد انھیں سور کا جنیاتی طور پر تبدیل شدہ دل لگایا گیا تھا۔

اس سرجری سے قبل وہ چھ ہفتوں تک بستر پر رہے اور انھیں ایک مشین سے منسلک رکھا گیا تھا جو انھیں زندہ رہنے میں مدد دے رہی تھی۔

رواں برس سات جنوری کو ان کی سرجری کی گئی تھی اور ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اس کے بعد کے چند ہفتوں کے دوران انھوں نے اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ گھر واپس جا کر اپنے پالتو کتے کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔

تاہم وقت کے ساتھ اُن کی صورتحال خراب ہوتی گئی جس سے ڈاکٹروں کو ’شدید مایوسی‘ ہوئی۔

ہسپتال کی جانب سے جاری کردہ بیان میں سرجن بارٹلے گرفتھ، جنھوں نے یہ ٹرانسپلانٹ کیا تھا، نے کہا کہ ’وہ ایک دلیر اور بہترین مریض تھے جو آخری دم تک ڈٹے رہے۔‘

تاہم خبررساں ادارے اے پی کے مطابق بینیٹ کے بیٹے ڈیوڈ جونیئر نے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کے والد کا ٹرانسپلانٹ ’امید کے سفر کا آغاز ہو، اختتام نہ ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم ہر اس اختراعی لمحے، بڑے خواب اور ہر اس آنکھوں میں کاٹی گئی رات کے لیے شکرگزار ہیں جو اس تاریخی کارنامہ سرانجام کرنے میں کاٹی گئی۔‘

ڈاکٹر گرفتھ کا کہنا تھا کہ اس سرجری سے دنیا کو ’اعضا کے بحران کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔‘

امریکی میں ہر روز ٹرانسپلانٹ کا انتظار کرنے والے 17 افراد ہلاک ہوتے ہیں اور اطلاعات کے مطابق اس وقت ایک لاکھ کے قریب مریض ٹرانسپلاٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔

انسانوں میں اعضا کی پیوندکاری کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے جانوروں کے اعضا کو استعمال کرنے جسے ’زینو ٹرانسپلانٹیشن‘ کہا جاتا ہے، کے امکان پر طویل عرصے سے غور کیا جا رہا ہے، اور سؤر کے دل کے والوز کا استعمال پہلے سے ہی عام ہے۔

گذشہ برس اکتوبر میں نیو یارک کے سرجنوں نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے ایک شخص میں کامیابی سے سؤر کے گردے کی پیوند کاری کی تھی۔ ان وقت یہ سرجری اس شعبے میں سب سے زیادہ جدید قرار دیا گیا تھا۔ تاہم اس وقت مذکورہ شخص کی دماغی موت ہو چکی تھی اور اس کی صحت کی بحالی کی کوئی امید نہیں تھی۔

دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی شخص میں سؤر کے دل کی پیوندگاری یقیناً طب کی دنیا کا ایک تاریخی لمحہ تھا۔ کسی جانور سے اعضا لینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ’ہائپراکیوٹ ریجیکشن‘ ہے یعنی انسانی جسم کا ان اعضا کو قبول نہ کرنے کا عمل۔

جب کسی جانور کے اعضا کو انسانی جسم میں لگانے کی کوشش کی جاتی ہے تو جسم اسے ’بیرونی مداخلت‘ تصور کرتے ہوئے اس پر حملہ کر دیتا ہے اور چند ہی لمحوں میں اس عضو کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے

اس مرتبہ امید یہ تھی کہ سؤر میں کی گئی 10 جینیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کے اعضا انسانی جسم قبول کر لے گا۔ وہ لمحہ خاصا اضطراب والا تھا جب یہ دل بینیٹ کے جسم میں لگایا گیا لیکن اسے جسم کی طرف سے کسی قسم کی فوری مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

جب میں نے سرجری کرنے والی ٹیم سے آپریشن کے ایک ماہ بعد بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ ابھی بھی جسم کی طرف سے مزاحمت نہیں ہے اور یہ دل ’ایک فراری کے انجن کی طرح چل رہا ہے۔‘

تاہم انھوں نے خبردار کیا تھا کہ بینیٹ خود خاصے کمزور ہیں۔ تاحال یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کے بعد سے ان کے جسم نے کیسا ردِعمل دیا اور بینیٹ کی موت کی اصل وجہ کیا ہے۔

ان تحقیقات کے نتائج سے ہمیں یہ معلوم ہو پائے گا کہ مستقبل میں ہم سؤر کے اعضا کو ٹرانسپلانٹ کے لیے دستیاب اعضا کے بحران کو حل کرنے کے لیے استعمال کرنے کے کتنے قریب ہیں۔


Source: BBC Urdu



Comments...