Top Rated Posts ....

Story of India's forced sterilization campaign to control population

Posted By: Muzaffar, August 08, 2022 | 09:57:39


Story of India's forced sterilization campaign to control population



جبری نس بندی: جب انڈیا میں مرد میلوں، تہواروں یہاں تک کہ اپنے گھر جانے سے بھی گھبرانے لگے

بڑے سائز کی گلابی عینک، ریشمی ساڑھی اور نیچے گلے کی چولی پہنے، اپنی ناک پر خوشبو میں بھیگا رومال رکھے، غازے اور زیور سے مزین رخسانہ سلطانہ، دلی میں جامع مسجد کے علاقے میں اکثر جاتیں مگر یہ خوش شکل خاتون کسی کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں بلکہ سب ان سے ڈرتے کیونکہ اس مسلم اکثریتی علاقے میں جبری نس بندی ان کے ذمے تھی۔

جبری نس بندی انڈیا میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کا حصہ تھی۔ اسے سنجے گاندھی نے کسی سرکاری عہدے پر نہ ہونے کے باوجودتب شروع کیا جب ان کی والدہ اندرا گاندھی نے 25 جون 1975 کو ملک میں ایمرجنسی نافذکی۔

’دو یا تین بس‘ کی نشریاتی مہم میں سے تین کا لفظ نکال دیا گیا اور اگلا نعرہ بنا ’ہم دو ہمارے دو۔‘

رشید قدوائی نے اپنی کتاب ’24 اکبر روڈ‘ میں لکھا ہے کہ اداکارہ بیگم پارہ کی بھانجی، 1950 کی دہائی کی پن اپ گرل اور اداکارہ امریتا سنگھ کی والدہ رخسانہ، سنجے گاندھی کو اپنا ’آئس کریم بڈی(دوست)‘ کہتی تھیں۔

قدوائی لکھتے ہیں کہ کناٹ سرکس میں ہیروں کے زیورات کی اپنی دکان پر رخسانہ کی ملاقات وزیر اعظم کے بیٹے سے ہوئی۔ اگلی ہی ملاقات میں انھوں نے سنجے کو بتایا کہ وہ ان کی قائدانہ خوبیوں سے بہت زیادہ متاثر ہیں اور اپنی زندگی ان کے ’کاز‘ یعنی مقصد کے لیے وقف کرنے کی پیشکش کی۔

یوں سنجے انھیں کچی آبادیوں اور جامع مسجد کے علاقے میں بھیجنے لگے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

رخسانہ کا بڑھتا اثر و رسوخ کئی لوگوں کو سخت ناپسند تھا۔ رخسانہ سے سنجے گاندھی کی بیوی مانیکا گاندھی بھی خفا تھیں اور ان کی والدہ اندرا گاندھی بھی۔

کولمبیا یونیورسٹی سے منسلک میتھیو کونلی لکھتے ہیں کہ سنجے گاندھی نے کچی آبادیوں کی صفائی کا ایک جارحانہ پروگرام شروع کیا اور بے گھر ہونے والے لوگوں کو بتایا گیا کہ جب تک وہ نس بندی کے لیے رضامندی نہیں دیتے، انھیں کسی اور جگہ نئے گھر بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

کئی قصبوں اور شہروں میں پولیس اور فوج کو ہجوم پر گولی چلانا پڑی تاکہ نس بندی کیمپوں کو چلایا جا سکے۔

قدوائی کے مطابق ’ایک موقع پر رخسانہ کو مبینہ طور پر مرکزی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کی طرف سے آٹھ ہزار مردوں کو نس بندی کا انتخاب کرنے کے لیے ’ترغیب دینے‘ کے لیے 84 ہزار روپے ادا کیے گئے۔

جون 1976 میں جب وہ دلی کے دیوار والے حصے کے ترکمان گیٹ کے علاقے میں کئی دکانوں کو مسمار کرنے کی نگرانی کر رہی تھیں تو مظاہرین کو پولیس کی لاٹھیوں، آنسو گیس اور بالآخر گولیوں کا سامنا کرنا پڑا اور کئی لوگ مارے گئے۔‘

صحافی اور سفارتکار کلدیپ نیر نے لکھا کہ ’اندرا اور ان کے بیٹے سنجے گاندھی نے بے رحمی سے حکومت کی۔ سنجے ایک ماورائے آئین اتھارٹی بن چکے تھے۔۔۔ جبری خاندانی منصوبہ بندی کے لیے جو حربے اختیار کیے گئے وہ سٹالن یا ماوزے سے مختلف نہ تھے۔ جہاں 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی نس بندی کی گئی وہاں ایسے لڑکوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا جو ابھی پوری طرح بالغ بھی نہیں ہوئے تھے۔‘

نس بندی سے مردوں میں جنسی رویوں پر تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بچے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی۔

لیفٹیننٹ گورنر کرشن چند نے جون میں حکم دیا کہ ہر ایک کو سرکاری ہسپتالوں میں طبی علاج کی ادائیگی کرنا ہو گی یا نس بندی کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہو گا۔ نس بندی اہداف کے حصول میں دلی پہلے ہی دیگر ریاستوں سے بہت آگے تھا۔ رخسانہ سلطانہ نے اس تعداد کو تین لاکھ تک لے جانے کا وعدہ کیا۔

کوٹا پورا نہ کرنے والے ملازمین کی تنخواہ روک لی جاتی اور صرف اپریل کے آخری پندرہ دن میں انھیں 1300 نس بندی کا کوٹا پورا کرنا پڑا۔

شہری حقوق کے کارکن اور مصنف جان دیال اور صحافی اجوئے بوس نے اپنی کتاب ’فار ریزنز آف سٹیٹ: دلی انڈر ایمرجنسی‘ میں لکھا کہ ’سنہ 1976کا موسم گرما، گزرتے دنوں اور بڑھتی گرمی کے ساتھ، اعلیٰ عہدیداروں کا دباؤ بھی بڑھ گیا کہ ’کوٹا پورا کریں۔ اعداد و شمارپورے کریں۔ ضرورت سنگین ہے۔‘

جونیئر عہدیداروں نے سختی اور بڑھا دی۔ انچارج کانٹریکٹ مزدوروں سے کہتے کہ ’جب تک نس بندی نہیں کراؤ گے کوئی ایڈوانس نہیں، کوئی نوکری نہیں۔‘

محکمہ تعلیم والدین کو رضاکارانہ طور پر تیار کرنے میں زیادہ کامیاب نہ ہوا ۔ پرائمری سکولوں میں کوششیں معمولی کامیاب ہوئیں۔ دیہی علاقوں میں والدین نے بچوں کے پاس ہونے کے وعدے پر نس بندی کے لیے رضا مندی ظاہر کی۔

پہلے سوچ یہ تھی کہ پولیس اہلکار نس بندی کے خلاف ایسے وقت میں بغاوت کر سکتے ہیں جب ان کی خدمات کی اشد ضرورت ہے۔ خاص طور وہ جو اسے نامردی تصور کرتے ہوئے اس سے متعلق حساس ہیں لیکن فیصلہ لے لیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ دلی پولیس کے 1100 سے زیادہ پولیس اہلکاروں اور افسران نے 20 جولائی 1976 تک ’رضاکارانہ‘ نس بندی کروا لی ہے۔

پندرہ دن بعد انسپیکٹر جنرل بھوانی مل نے اعلان کیا کہ یہ تعداد اب 2000 ہے، جس میں پولیس کے تین ایس پی بھی شامل ہیں۔

نس بندی کی یہ لہر رضاکارانہ نہیں تھی۔ خاص طور پر پولیس کے نچلے درجے کے درمیان زبردست اختلاف رائے پیدا ہوا۔ ٹریفک پولیس یونٹ نے بغاوت کی دھمکی دی جب انھوں نے نس بندی کے بعد انفیکشن سے ایک ٹریفک ہیڈ کانسٹیبل کی خوفناک موت کی کہانی سنی۔

یہ کہانی بیرک بیرک دہرائی گئی۔ ٹریفک ہیڈ کانسٹیبل نےچھٹی مانگی تو نہ ملی کہ اگر انفیکشن کی خبر لیک ہو گئی تو کوئی دوسرا ٹریفک پولیس اہلکار نس بندی پر راضی نہیں ہو گا۔

انفیکشن ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتا گیا اور آخر کار درد اور مایوسی کے عالم میں ہیڈ کانسٹیبل دلی ٹریفک پولیس کے چیف کے پاس گیا۔ وہاں کانسٹیبل نے اپنی پتلون اتار کر ایس پی کو اپنی خوفناک حالت دکھائی۔

ایس پی نے ایمبولینس منگوائی، ہیڈ کانسٹیبل کو ہسپتال میں داخل کیا گیا لیکن دو دن بعد اس کی موت ہو گئی۔

اس کہانی نے ٹریفک پولیس اہلکاروں میں اس طرح کا غصہ پیدا کیا تھا کہ نس بندی کو ان میں روکنا پڑا۔ نس بندی کے بعد تین دیگر پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی اطلاعات بھی پولیس بیرکوں تک پہنچ گئیں۔

بھوانی مل، جو پولیس میں نس بندی مہم میں سب سے آگے تھے، کا پرانی پولیس لائن میں گھیراؤ کیا گیا۔ دو بچوں کے والد ایک کانسٹیبل نے ان سے کہا کہ ’اگر میرا ایک اور بچہ ہو تو جناب مجھے گولی مار دیں لیکن براہ کرم میری نس بندی نہ کریں۔‘

ایک اور کانسٹیبل نے کہا کہ ’میں ایک برہمن ہوں، مجھے ہر دن اپنا مقدس غسل کرنا ہوتا ہے۔ اگر نس بندی کے بعد غسل کرتا ہوں تو مجھے انفیکشن ہو جائے گا۔‘

آئی جی پی نے حکم دیا کہ ’اس آدمی کو لے جاؤ۔ اس طرح تو ہمارے پاس ہر ایک کی التجا ہو گی کہ وہ برہمن ہے۔‘

شہری اداروں کے محکموں میں مشتعل لوگوں کی لامتناہی لائنیں لگتیں کہ ان کے افسران نس بندی کے بدلے میں کیے گئے وعدوں کو برقرار نہیں رکھتے۔

نس بندی کروانے والے ایک شخص کا، جسے ڈاکٹر نے سائیکل چلانے یا زیادہ چلنے سے منع کیا تھا، گھر سے 20 کلومیٹر دور تبادلہ کر دیا تو اس کی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ بس کے کرایے پر خرچ ہو جاتا۔

علاج کے خواہاں تمام افراد کو اپنے راشن کارڈ تیار کرنا پڑتے۔ ناکامی کی صورت میں سمجھا جاتا کہ ان کے بچے دو سے زیادہ ہیں۔ دو سے زیادہ بچے رکھنے والے افراد مفت طبی امداد کے تب ہی حقدار ہوتے جب ایک شریک حیات کا نس بندی کا سرٹیفکیٹ بنتا۔

ایک خاتون خاکروب کی حالت بدترین تھی۔ ایک کیمپ میں اس کی نس بندی کی گئی تھی۔ زخم ٹھیک نہ ہوا لیکن اس کی چھٹی ختم ہو گئی تھی۔

اب اسے دوبارہ رخصت کی ضرورت تھی۔ وہ اسٹیبلشمنٹ افسر سے ملنے کے لیے ایک ہفتے تک ہر روز ہیڈ آفس آتی تھیں لیکن بیکار۔ ایک دن سیڑھیوں پر چڑھتے گر گئی، خون بہہ رہا تھا۔

ایک بار جب ہنگامی صورتحال نافذ کر دی گئی تو 1976 کے ایکٹ نے مرکزی حکومت کو خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں پر عمل درآمد کرنے کا حق دے دیا۔ اس کے فوراً ہی بعد، مرکزی حکومت نے ریاستی سیاسی قیادت کو متحرک کر دیا اور فیصلہ کن اقدامات اٹھائے ، جیسے کیمپ اور نس بندی کے اہداف کا قیام۔

چھ اگست 1976 کو ریاست مہاراشٹر تیسرے بچے کی پیدائش کے بعد مردوں اور عورتوں کی لازمی نس بندی پر قانون سازی کرنے والی پہلی سرکاری اکائی بن گئی۔ بل کو منظور کیا گیا اور اسے انڈیا کے صدر کو بھیج دیا۔

مطلوبہ رضا مندی کے لیے صدر نے کچھ ترامیم کی تجویز پیش کی لیکن اس سے پہلے کہ ان اقدام کو منظور کیا جا سکتا، نئے انتخابات کا اعلان ہو گیا اور قانون نہ بن سکا۔

تاہم پولیس کے دیہاتیوں سے ٹکراؤ کے واقعات اور مردوں کو سرجری کے لیے عملی طور پر گھسیٹنے کی اطلاعات ملنے لگیں۔ دیہات میں غریب مرد سرکاری عہدیداروں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے کیونکہ انھیں اپنا کوٹا پورا کرنا ہوتا جس پر ان کی تنخواہ ملنے کا انحصار تھا۔

مرد گھر کی بجائے کھیتوں میں سونے لگے۔ بڑے تہواروں اور عوامی اجتماعات کو چھوڑ دیا کہ کہیں وہاں نس بندی نہ ہو جائے۔ ٹرینوں میں بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں پر بھاری جرمانہ ایک ہی شرط پر معاف ہوتا کہ وہ نس بندی کے لیے راضی ہوتے۔

ملک کے کچھ حصوں میں غریب مردوں اور خواتین کو نس بندی کے بدلے میں یا دوسروں کو ایسا کرنے کے لیے ’حوصلہ افزائی‘ کرنے کے بدلے میں زمین کی پیشکش کی گئی۔

ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ دولت مند شہری اس سے بچ نکلنے کے قابل تھے۔

انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں ایک تحقیق سے پتا چلا کہ نس بندی کے عمل سے گزرنے والوں کی عمروں کو منظم طریقے سے غلط قرار دیا گیا۔ تقریباً نصف کی عمریں 50 سال سے زیادہ تھیں۔

حکومت نے اسی لاکھ سے زائد افراد کی صرف ایک سال میں نس بندی کی، جو ’نازیوں کی نس بندی کی تعداد سے 15 گنا زیادہ‘ تھی۔ دو ہزار افراد غلط آپریشنوں میں ہلاک ہو گئے۔ کچھ سرکاری اہلکار دیہاتیوں کے احتجاج میں مارے گئے اور اس سے بھی زیادہ شہری پولیس کی انتقامی کارروائیوں کے دوران ہلاک ہوئے۔

ایسا نہیں کہ انڈیا کو خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں تھی۔اوابائی واڈیا خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک میں عالمی سطح پر ایک قابل احترام شخصیت تھیں۔

انھوں نے اپنی سوانح عمری ’لائٹ از آورز‘ یعنی روشنی ہماری ہے، میں بمبئی کی ایک خاتون ڈاکٹر کے حوالے سے لکھا کہ ہندوستانی خواتین ’حمل اور دودھ پلانے کے درمیان اس وقت تک گھومتی رہتی ہیں جب تک کہ موت ان کی افسوسناک کہانی کو ختم نہیں کر دیتی۔‘

پری ناز مدن نے لکھا کہ سنہ 1949 میں فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف انڈیا (ایف پی اے آئی) کے قیام میں مدد کرنے والی اور 34 سال تک اس کی سربراہ رہنے والی واڈیا کی کوششوں ہی سے انڈیا سنہ 1951-52 میں خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسیوں کو باضابطہ طور پر فروغ دینے والا دنیا کا پہلا ملک بنا۔

خاندانی منصوبہ بندی کو تعلیم، ہنر مندی اور صحت کے مجموعی ایجنڈے سے جوڑتے ہوئے واڈیا اور ان کی ٹیم نے لوگوں سے رابطے کی تخلیقی تکنیکوں کو استعمال کیا۔

اسی تناظر میں جبر کا سہارا لینے کو واڈیا سمیت خاندانی منصوبہ بندی کے ماہرین نے بھی غلط کہا۔

سنہ 1975 سے 1977 تک نافذ رہنے والی ایمرجنسی میں حکومت کی جبری نس بندی کو اپنانے کی واڈیا نے مذمت کی اور خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں میں جبر کے خلاف متنبہ کیا اور کہا کہ اس میں شرکت کو سختی کے ساتھ رضاکارانہ ہونا چاہیے۔

خاندانی منصوبہ بندی کے اچھے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے تھے لیکن انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایمرجنسی نے ’پورے پروگرام کو بدنام کر دیا۔‘

کونلی کے مطابق اندرا گاندھی نے آخر کار آبادی کنٹرول کرنے کے اس پروگرام پر لگام ڈالی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔

جب ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد سنہ 1977 میں انتخابات ہوئے تو شکست فاش سے کانگریس کا 30 سال کا دور حکومت ختم ہو گیا۔

جن ریاستوں میں نس بندی میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا تھا، وہاں پارٹی کو 142 میں سے 141 نشستوں کا نقصان ہوا کیونکہ اپوزیشن نے انتخابی مہم میں جبری نس بندی ہی پر توجہ مرکوز کی تھی۔


Source: BBC Urdu



Comments...