Copyright Policy Privacy Policy Contact Us Instagram Facebook
Top Rated Posts ....
Private airline's staff tear passenger's passport at Karachi airport Private airline's staff tear passenger's passport at Karachi airport Serial numbers of Indian Rafale jets shot down during war with Pakistan revealed Serial numbers of Indian Rafale jets shot down during war with Pakistan revealed Virat Kohli faces severe criticism on social media for ignoring a disabled fan Virat Kohli faces severe criticism on social media for ignoring a disabled fan Is the viral Image of Imran Khan working out in jail authentic? Is the viral Image of Imran Khan working out in jail authentic? Moment replica 'Statue of Liberty' topples in storm in Brazil, footage goes viral Moment replica 'Statue of Liberty' topples in storm in Brazil, footage goes viral Three accused NCCIA officials removed from their posts as FIA probe into bribery case Three accused NCCIA officials removed from their posts as FIA probe into bribery case



اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایک تحقیق کے مطابق آئندہ دس برسوں میں تین کروڑ لڑکیوں کو ان کے جنسی اعضا کے کاٹے جانے کا خطرہ درپیش ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج دنیا بھر میں ساڑے بارہ کروڑ ایسی خواتین زندہ ہیں جو اس مرحلے سے گزرچکی ہیں لیکن جن ممالک میں اس رسم کا رواج ہے ان میں سے بیشتر ملکوں میں اب اس کی مخالفت ہو رہی ہے۔

بعض افریقی، مشرق وسطیٰ اور ایشیائي برادریوں میں خواتین کے جنسی اعضا کاٹے جانے (ایف جی ایم) کا رواج ہے۔ان کا خیال ہے کہ اس سے لڑکی کی دوشیزگی یا کنوار پن برقرار رہتا ہے۔
اسے بعض معاشروں میں لڑکیوں کا ختنہ بھی کہا جاتا ہے اور لڑکیوں کی دوشیزگي کو شادی تک برقرار رکھنے کے لیے اس پر بطور رسم عمل کیا جاتا ہے۔
یونیسیف لڑکیوں کے جنسی اعضا کے کاٹے جانے یا ختنے کی رسم کا خاتمہ چاہتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اطفال فنڈ کے سروے کو اس مسئلے پر اب تک کا سب سے جامع سروے مانا جا رہا ہے۔ اس میں یہ پایا گیا ہے کہ خواتین اور مرد دونوں میں اس رسم کی حمایت کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
یونیسیف کی نائب اکزیکٹیو ڈائریکٹر گیتا راؤ گپتا کا کہنا ہے کہ ’ایف جی ایم لڑکیوں کی صحت، ان کی بھلائی اور خود اختیاری کے حق کی خلاف ورزی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے خلاف صرف قوانین وضع کرنے سے بات نہیں بنے گی۔‘
’لڑکیوں کا ختنہ: اعداد و شمار کا جائزہ اور تبدیلی کی تلاش‘ نامی اس سروے کو واشنگٹن ڈی سی میں ریلیز کیا گیا۔
اس کے لیے گذشتہ 20 سال کے دوران ان 29 افریقی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے اعداد و شمار جمع کیے گئے جہاں لڑکیوں کا ختنہ اب بھی ہوتا ہے۔
رپورٹ میں یہ پایا گیا ہے کہ تیس سال پہلے کے مقابلے میں حالات بہتر ہوئے ہیں اور اب لڑکیوں کے ختنے کا خطرہ نسبتاً کم ہے۔

رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ کینیا اور تنزانیہ جیسے ملکوں میں آج کی لڑکیوں کو اپنی ماؤں کے مقابلے یہ خطرہ تین گنا کم ہے جبکہ وسط افریقی جمہوریہ بینن، عراق، لائبیریا اور نائیجیریا میں یہ خطرہ نصف ہو گیا ہے۔
لیکن صومالیہ، گنی، دیبوتی، مصر میں یہ آج بھی عام ہے جبکہ چاڈ، گمبیا، مالی، سینیگال، سوڈان اور یمن میں اس میں کچھ کمی آئي ہے۔
چاڈ، گنی اور سرائیالیون میں خواتین کے مقابلے میں مرد اس رسم کے خلاف ہیں۔
راؤ گپتا نے کہا ’اب یہ چیلنج ہے کہ لڑکیوں، خواتین، لڑکوں اور مردوں کو واضح اور پرزور انداز میں آواز بلند کرنا چاہیے اور یہ اعلان کرنا چاہیے کہ وہ اس خطرناک رسم کو ترک کرنا چاہتے ہیں۔‘
لڑکیوں کے جنسی اعضا کاٹے جانے میں شدید طور سے خون کا بہنا، پیشاب کرنے میں تکلیف کا سامنا، انفکشن، بانجھ پن اور نوزائدہ بچے کی موت کا خطرہ شامل ہوتا ہے۔


Source: BBC News



Comments...