Top Rated Posts ....

Ayyan Ali slams Shahbaz Gill for crying in court & shares her story of 4 months imprisonment

Posted By: Wajid , August 20, 2022 | 07:34:15


Ayyan Ali slams Shahbaz Gill for crying in court & shares her story of 4 months imprisonment


۔ 2015 میں منی لانڈرنگ کے الزامات میں گرفتار ہونے والی ایان علی نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے اپنے جیل میں گزرے چار ماہ کی کہانی شیئر کردی۔ ایان علی نے شہباز گل کی روتے ہوئے اور اپنی ہنستے ہوئے تصویر شیئر کی اور شہباز گل کو شرم دلانے کی کوشش کی۔



ایان علی کے ساتھ جیل میں کیا کیا ہوتا رہا، ملاحظہ کیجئے ایان کی اپنی زبانی۔

------------------------
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
سن 2015 میں جب چند معلوم و نامعلوم کرداروں نے چند مخصوص و مزموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہمارا انتخاب کیا تو کیا خیال ہے، وہ ذہنی جسمانی و صنفی تشدد کرنے سے جھجکے ہوں گے؟ وہ نہیں جھجکے۔

اڈیالہ جیل کے Death Cell میں گزرے اُن 4 ماہ کا ہر ایک دِن و ہر ایک رات ایک مختلف تشدد کی داستان ہے، جسے سنانے کا حوصلہ شاید ابھی ہم میں نہیں مختصراً یہ کہ بیشتر مرتبہ بیچاری Female Superintend کو کہنا پڑتا تھا کہ "سر نہ کریں یہ لڑکی ہے آپ ایسا نہیں کر سکتے" مگر وہ جو اُس وقت خود کو ریاستِ خداداد کا نا خُدا سمجھتے تھے بیچاری Female Superintendent کی دہائی کیا سنتے اُنہیں تو ایک Video Recoreded بیان چاہیے تھا۔

اُس بیان کو حاصل کرنے کے لیے جو جو حربے آزمائے گئے، اُن میں سے چند عدالتی اور چند Medical Records پر اپنے نقوش چھوڑ گئے Medical Record سے یاد آیا کہ جیل سے نکلنے کے بعد Surveillance کا یہ عالم تھا کہ ہمارے کسی Clinic کے معمولی سے Visit سے لے کر Fast Food Chain سے Order کیا گیا Burger تک ٹی وی پر Live رپورٹ ہوتا تھا اِس عالم میں پاکستان میں Medical Examination کروانا تو بعید از قیاس تھا پہلی مرتبہ میڈیکل ایگزامینیشن کا موقع بھی 2 سال بعد Dubai میں ملا جب ECL سے جان چھوٹی۔ اِس Examination میں پتہ چلا کہ 4 ماہ کے جسمانی و صنفی اور 2 سال کے نفسیاتی تشدد نے Cardiomyopathy، Lower Back Lumbago اور Recurrent Chronic Depression کے ساتھ ساتھ کئی Life Long تحفے دیے ہیں اِن تحفوں کا کچھ اثر تو جیل کے ایام میں ہی واضع ہونا شروع ہو گیا تھا جب 4 ماہ میں وزن 58 کلو سے 90 کلو ہو گیا۔

اِس Abnormal Weight Gain کی وجہ Harmonic Reaction To Gender Specific Violence تھا اِس Violence کا ذکر بھی ایک قرض ہے جو ہم کسی دِن ضرور ادا کریں گے (آمین) ابھی تو مریم نواز بھی باوجود دخترِ وزیر اعظم ہونے کے Gender Specific Violence کے مکمل بیان سے پہلو تہی کرتی ہیں کیونکہ معاشرہ شاید مکمل سچ سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔

امید ہے وہ ہم اور ہم جیسے کئی اور کبھی Trigger Warning کے ساتھ ہی مگر یہ سچ بیان کر سکیں گے بغیر کسی خوف کے آج تو مقصد وہ داستان بیان کرنا نہیں اُس داستان کے عوامی تاثر کی حقیقت بیان کرنا ہے
ہماری بارے میں عوامی تاثر یہ تھا کہ ہم جیل میں بیش بہا سہولیات سے مستفید ہیں اور غالباً عیاشی کی ایک زندگی گزار رہے ہیں
حقیقت یہ تھی کہ 6x9 کے ایک سیل میں قید تھے جس میں درج ذیل سہولیات تھیں ایک چٹائی، ایک گھڑا پانی (نیم گدلا)، ایک سیمی اوپن واش روم، ایک صابن جسے کئی بار توڑ کر دیکھا جاتا کہ اُس میں کوئی سیٹلائٹ فون تو نہیں، ایک شیمپو جو شاید صرف Hairfall بڑھاتا ہی تھا۔

پنکھا جون جولائی میں مانگنے پر بھی نہ ملا مگر چھپکلیاں اور لال بیگ بنا مانگے لا تعداد فراہم کیے گئے پنکھے کی کمی نیم گدلے پانی کے خود زمین پر چھڑکاو سے پوری ہو جاتی تھی اور چھپکلیوں اور لال بیگوں سے کچھ دوستی ہو گئی تھی، رات کے کسی پہر اُن کی خود پر موجودگی بھی Solitary Confinement میں ناگوار نہیں گزرتی تھی کچھ کمپنی ہی محسوس ہوتی تھی۔

یہ تھی وہ عیاشی جسے بچشم خود دیکھنے کے لیے با وردی و بے وردی مرد اہلکا دن میں کئی بار خلافِ قانون سیل کی سرپرائز تلاشی لیتے تھے یہ خیال کیے بغیر کہ کوئی مقیدِ قفس کس عالم میں ہے۔

آپ سب کے دِل میں یہ سوال ہو گا پھر یہ حالات دورانِ پیشی ہمارے چہرے پر واضع کیوں نہ ہوتے تھے؟

ہم کیوں ایک Damsel In Distress یا Star Plus کی زبان میں "ابلا ناری" کا عملی نمونہ دکھائی نہ دیتے تھے؟ اس کی وجہ بہت سادہ ہے وہ یہ کہ ہم نے روزِ اول ہی یہ تہیہ کیا تھا کہ جو لوگ بہت گھمنڈ سے ایک Supermodel کو 48 گھنٹوں میں توڑنے کا وعدہ کر رہے تھے اُن کے گھمنڈ کو توڑنا تھا۔

یہ ثابت کرنا تھا کہ اُن کا تشدد اگر مردانِ سیاست برداشت کر سکتے ہیں تو Independent خواتین بھی برداشت کر سکتی ہیں محض تشدد کے سامنے کوئی Independent لڑکی اپنے کردار کے منافی بیان نہیں دیتی۔

شائد کم عمری کی وجہ سے ہم خود کو دِل ہی دِل میں خواتین کا کوئی نمائندہ مان بیٹھے تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر ہم ٹوٹے ہوئے دکھائی دیے تو عورت ٹوٹی ہوئی دکھائی دے گی اور آئندہ کوئی عورت پر اعتبار نہیں کرے گا
بس اسی ذعم میں ہر پیشی سے پہلے کسی African ملزمہ کا جون جولائی کی گرمی میں دیا ہوا Used Hoodie لے کر پہنتے تھے جو چہرے اور گردن پر نشان چھپائے کسی پاکستانی ملزمہ کا دیا ہوا Eyeliner، کسی کی دی ہوئی 100 روپے کی لپسٹک اور کسی کی فئیر اینڈ لولی۔

اِن آلاتِ حرب سے لیس ہو کر ہم پدر شاہی معاشرے سے جنگ کرنے چل پڑتے تھے
مقصد یہی تھا کہ اپنے بد خواہوں کو تکلیف دیں اور نیک مندوں کو حوصلہ کہ لڑکی ابھی ٹوٹی نہیں. اِن آلاتِ حرب کے استعمال اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے اظہار کی قیمت ہر پیشی سے واپسی پر چکانی پڑتی، تضحیک آمیز تشدد کچھ درجے مزید بڑھ جاتا اور پابندیاں کچھ مزید سخت ہو جاتیں۔

جب بھائی و وکلاء تک سے ملاقات بھی بند کر دی گئی تو آنکھیں نم ضرور ہوئیں مگر تنہائی میں دوسروں کے سامنے تو چولہے پر استری کیے گئے کپڑے سے زخم سیکتے بھی اُف نہیں کری تھی ڈر لگتا تھا کہ کوئی ویڈیو نہ بنا لے اور یہ نہ کہتا پھرے کہ دیکھا نہ ٹوٹ گئی اِن حالات میں دوسری قیدی خواتین ایسے حوصلہ دیتی تھیں جیسے میں سچ میں اُن کی کوئی Leader ہوں یہ چولہے پر استری کیا گیا کپڑا، Hoodie، Eyeliner، Lipstick اور فئیر اینڈ لولی وہ ایسے لڑ جھگڑ کر فراہم کرتی تھیں گویا وہ بھی شاملِ جنگ ہوں بعض اوقات تو حدود Cross ہوتی دیکھ کر میرے لیے احتجاج بھی کر ڈالتی تھیں۔

اُن کے یہی عمل لڑتے رہنے کا حوصلہ دیتے تھے آج جب شہباز گِل کو روتے گڑگڑاتے اور مبالغہ کی حد تک اداکاری کرتے دیکھا تو دکھ ہوا کیونکہ وہ ایک سیاسی جماعت کے رکن اور کابینہ کے سابق ممبر ہیں وہ یہ کیوں نہیں سوچ رہے کہ اُن کی بچگانہ حرکتوں سے اُن کے ہم جماعتی سیاستدانوں اور وزراء کولیگز پر کیا تاثر پڑے گا کہ ذرہ برابر Comfort Disturb ہوئی نہیں اور مانند بھینسے کے ڈکارنا شروع کر دیا عدالتی چوکھٹ پر ہی لیٹ گئے کہ میں نے نہیں جانا پولیس کے ساتھ اور عدالتی فیصلوں کے ساتھ سانس نتھی ہو گئی جو اپنے صوبے کے وزیرِ داخلہ نے بھی مانی۔

ویسے اِس سے بھی بڑھ کر شرم کی بات کچھ اور ہے سیاستدان و وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ شہباز گل پدر شاہی یا Patriarchy کے Brand Ambassador بھی تھے خواتین کے متعلق گندی زبان، رقییق جملے بازی و Toxic Masculinity کے اظہار میں ان کا اپنا مقام تھا۔

اب یہ ہائے ہائے کار دیکھ کر پدر شاہی بھی سوچتی ہو گی کہ کس کو Brand Ambassador رکھا شہباز گل سے گزارش ہے کہ اور کسی کے لیے نہیں تو اُن بیچارے Misogynist مردوں کے لیے ہی کچھ حوصلہ دکھائیں جو آپ کو Idealise کرتے تھے
اگر آپ کی حالت دیکھ کر بیچاروں کی Toxic Masculinity مر گئی تو پاکستان کہیں ایک Egalitarian معاشرہ نہ بن جائے جو آپ بالکل نہیں چاہتے آپ کے نشانے پر رہنے والی لا تعداد خواتین عاصمہ شیرازی، بینظیر شاہ، غریدہ فاروقی اور ہم بھی آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ پدر شاہی کا اتنا مان تو رکھیں گے جتنا ہم نے عورتوں کا رکھا۔

ایسی امید تو بر نہیں آتی پر کیا پتہ آپ کو کچھ شرم آئے
اِسی شرم کی منتظر ہم آپ کی اگلی پیشی دیکھیں گے

اللہ رب العزت پاکستان کو شہباز گل آپ جیسوں اور آپ جیسوں کی سوچ سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین۔
------------------------

ریفرنس: ایان علی کا درج بالا تھریڈ اس ٹویٹ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔





Comments...