Top Rated Posts ....

Remembering Arshad Sharif - Matiullah jan's article on Arshad Sharif's death

Posted By: Saif, October 28, 2022 | 08:41:52


Remembering Arshad Sharif - Matiullah jan's article on Arshad Sharif's death



ارشد شریف کی والدہ نے مطیع اللہ جان سے کیا گلہ کیا؟

تحریر: مطیع اللہ جان

ارشد شریف کو لحد میں اتارنے کے بعد بہت سے پرانے واقعات نظروں کے سامنے گھوم گئے۔ قبر سے چند گز دور ارشد کے والد اور بھائی کی قبریں تھیں جو ایک ہی دن قبروں میں اتارے گئے تھے۔ مجھ پر وہ دن بہت بھاری تھا۔ اس کے والد کا جنازہ گھر پر تھا، اور اس کے سگے بھائی کی شھادت کی خبر ارشد تک پہنچانے کی ذمے داری مجھے دی گئی۔

ارشد ایک بہادر صحافی کی طرح معاملے کی نزاکت کو بھانپ گیا اور میری بات پوری ہونے سے پہلے خود ہی سمجھ گیا، پھر ہم دونوں مل کر اس کی والدہ کو بتانے گئے اور شروع میں ان کو حادثے کا بتایا اور ارشد کے بھائی کے زخمی ہونے کا بتایا مگر ماں ہمیں دیکھ کر سب سمجھ چکی تھی۔
ارشد نے ماں کو گلے لگا لیا جس نے الٹا ارشد کو حوصلہ دینا شروع کر دیا، وہ بھاری دن بھی گذر گئے۔

قل پر ارشد شریف ساتھ بیٹھا اور کہا یہ انسان بہت ڈھیٹ نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ بڑے سے بڑا حادثہ بھی ہو جائے تو وقت کے ساتھ وہ بھول جاتا ہے۔ پھر شاید میں نے اس پر زندگی کا فلسفہ جھاڑ دیا۔
ارشد کے گھر کے جس ڈرائینگ روم میں دوستوں کی رات گئے تک کی محفل، سیاست اور اسٹیبلشمنٹ پر گفتگو اور ساتھیوں کے ساتھ طنز و مزاح ہوتا تھا۔ ارشد کی موت کے بعد اسی کمرے میں ارشد کی والدہ کے سامنے چند دوست صحافیوں کے ہمراہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا، اور پھر گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔

میرے افسوس کرنے پر انہوں نے مجھ سے بھی افسوس کیا مگر غمزدہ ماں نے شکوہ بھی کیا ان فاصلوں کا جو میرے اور ارشد بیچ آ گئے تھے۔ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں کے ساتھ انٹرویوز کے دوران ارشد سے کی گئی گفتگو پر خوب ڈانٹ پلائی مگر پھر بھی کچھ لحاظ کر گئیں، دلاسہ دیا اور پھر دعا بھی۔

شاید میں ایک ماں کی اس سے بھی زیادہ ڈانٹ کا حقدار تھا، اگر میری ماں زندہ ہوتی تو شاید مجھے اس سے بھی زیادہ ڈانٹ پلاتی اور اگر ارشد کی جگہ میں ہوتا اور میری جگہ ارشد تو میری ماں نے بھی ارشد کا کوئی لحاظ نہیں کرنا تھا کیونکہ ماں تو ماں ہوتی ہے۔

ایک بار ارشد کے ساتھ گاڑی میں سفر کے دوران میں نے کچھ کھا کر کاغذ کا ریپر بے دھیانی میں باہر اچھال دیا، اچانک یوں لگا کہ بھونچال آ گیا ہے۔ ارشد نے اونچی آواز میں شاؤٹ کیا اور طنز بھرے انداز میں کہا اوئے یار یہ کیا کیا تم نے لندن کی تعلیم نے کچھ نہیں بگاڑا تمھارا۔
قابو آنے کی میری باری تھی اس لئیے کوئی جواب نہیں بن پڑا اور بس کھسیانی بلی بن گیا۔

ایسا ہم اکثر ایک دوسرے کے ساتھ کرتے تھے، مگر اس واقعے کے بعد کئی سال تک بلکہ اب بھی گاڑی میں کچھ کھایا تو ارشد کی وہ بلند آواز سنائی دیتی اور میں دل ہی میں ہنس دیتا۔
ارشد دوستوں کا دوست تھا مگر جس کو دشمن بنا لیتا تو پھر اسے احساس دلاتا رہتا تھا، ایسا نہ کرنا شاید اس کے بس میں ہی نہیں تھا، اس کے چہرے کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک میں اس وقت انتہائی تیزی آ جاتی جب وہ دوستوں کی محفل میں ہوتا، چند دوستوں کے بیچ طنز و مزاح کا میچ پڑھ جاتا۔

سب اس کے چہرے کی مسکراہٹ، قہقہے لگاتی آنکھوں کو دیکھ کر ایسے فارم میں آ جاتے جیسے کوئی شاعر سامعین سے داد سمیٹتا جوش میں آ جائے،خود تو زیادہ تر خاموش رہ کر اپنی مستقل مسکراہٹ سے بولنے والے کی خوب حوصلہ افزائی کرتا پر بولنے والا سمجھتا کہ وہ واقعی اس کی باتوں سے محظوظ ہو رہا ہے۔
غصے کا تیز تھا مگر اپنے کام میں جدت اور محنت کا دھنی، ڈان ٹی وی کے دنوں میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے انتہائی سخت اور مشکل خبروں پر بھی میرے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوا اور فیصلہ غلط ہو یا صحیح وہ کسی کے کہنے پر بلاوجہ اسے تبدیل نہیں کرتا تھا اور جو اسے ایسا کرنے پر بغیر دلیل کے مجبور کرنے کی کوشش کرتا اس کو زیادہ ہزیمت اٹھانا پڑتی۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات پر کامل یقین رکھتا تھا کہ جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہے اور یہی وجہ تھی کہ اس سے ناراضگی کے بعد جو کچھ وہ کرتا اس سے فاصلے کم نہیں بڑھتے ہی رہتے۔

بشکریہ: پاکستان 24 ڈاٹ ٹی وی



Comments...