Top Rated Posts ....

Do you know how useful human waste is?

Posted By: Tariq, November 19, 2022 | 14:27:16


Do you know how useful human waste is?



انسانی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے اس سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟

پورٹوریکو کے جنگل کے بیچ بنے قدرتی کھاد استعمال کرنے والے اس کھیت یا آرگینِک فارم کے اندر ایک بائیو ٹوائلٹ ہے۔ دیکھنے میں تو یہ کسی بھی شہری بیت الخلا کی طرح عام سا ٹوائلٹ لگتا ہے مگر استعمال کے بعد اس میں پانی بہانے کے بجائے قریب رکھے ڈبے میں سے لکڑی کا برادہ نکال کر فصلے پر چھڑک دیا جاتا ہے۔

یہ فارم مینول پیریز کی فیملی کی ملکیت ہے اور اس میں موجود بائیو ٹوائلٹ کے دو مقاصد ہیں۔

پہلا مقصد 35 ایکڑ پر پھیلے ہوئے فینکا گایا نامی اس جنگل کو زیر زمین پائپ کے ذریعے نقصان پہنچنے سے بچانا ہے کیونکہ یہ ایک قدرتی جنگل ہے اور بلدیہ کی نکاسی کا نظام یہاں سے کافی دور ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم جسے انسانی فضلہ کہتے ہیں وہ پیریز کے گھر والوں کے نزدیک پودوں کے لیے بہترین غذا ہے جسے زمین میں لوٹا دینا چاہیے۔

ٹوائلٹ سیٹ کے نیچے رکھا ہوا ڈبا جب بھر جاتا ہے تو وہ اسے پہلے سے کھدے ہوئے ایک گڑھے میں انڈیل دیتے ہیں۔ اس گڑھے میں درختوں کے ٹوٹے ہوئے پتے اور دوسرا کچرا بھی ملایا جاتا ہے، اور کچھ عرصے بعد یہ سب کچھ گل سڑ کر کھاد میں بدل جاتا ہے۔

پیریز کا کہنا ہے ’ہم انسانوں کو انسانی فضلے کی صحیح سمجھ بالکل نہیں ہے۔ یہ تو غذائی اجزا سے بھرپور بہت اچھی کھاد ہے۔ جب میں اسے پھلدار درختوں کو بڑا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہوں تو پھر ضائع کیوں کروں؟‘

یہ بارانی جنگلات انسانی فضلے سے بنی کھاد کے لیے مناسب معلوم ہوتے ہیں، مگر انسانی فضلے کا بطور کھاد استعمال اور بھی بہت سے جگہوں پر ہوتا ہے۔ ان میں گاؤں دیہات بھی شامل ہیں اور بڑے شہر بھی۔ اب بہت سے لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ انسانی فضلے کو غلاظت سمجھ کر ٹھکانے لگانے کی بجائے اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فضلے کے اندر بہت سے ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو پودوں کی خوراک بن سکتے ہیں۔ پھر کھاد بنانے سے اُس پانی کی بھی بچت ہوتی ہے جو ٹوائلٹ فلش کرنے (فضلے کو بہانے) کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اور تو اور زمین کو زرخیز بنانے کے لیے مصنوعی کھاد یا فرٹیلائزر کی ضرورت بھی کم پڑتی ہے، اور یوں پیسے کی بھی بچت ہو جاتی ہے اور ہماری جھیلیں اور دریا بھی بارش کے ساتھ بہہ جانے والے فرٹیلائزر کے بُرے اثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔

اور یہ کہ فرٹیلائزر جس فوسِل فیول (قدرتی گیس) سے بنتی ہے اس کی بھی بچت ہو جاتی ہے۔ مصنوعی کھاد کی تیاری کے عمل میں نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا عالمی اخراج کا 1.8 فیصد ہے۔

انسانی فضلے کو کام میں لانا شاید غیر روایتی لگے مگر اب اسے معیشت کے اہم حصے کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔ اس عمل کو ’سرکلر سینیٹیشن‘ کہتے ہیں۔ سرکولر سینیٹیشن کا نظام مہیا کرنے والی کمپنی ’پوئنٹ آف شِفٹ‘ سے وابستہ کیسلی میکویلیمز کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو اب احساس ہو رہا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ پائیدار نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب خاص طور سے امریکہ میں سرکلر سینیٹیشن میں لوگ بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔‘

اگر اس عمل کو صحیح طور پر انجام دیا جائے تو یہ دنیا بھر میں انسانی فضلے سے نمٹنے کا بڑا پائیدار نظام ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ہماری زمین انسانی فضلے کے بوجھ سے تلملا رہی ہے۔

تصور کیجیے کہ سات ارب سے زیادہ انسان روزانہ فی کس تقریباً آدھا کلو فضلہ خارج کرتے ہیں۔ یہ غلاظت ہمارے ماحول کو کئی طرح سے خراب کرتی ہے۔ غریب ممالک میں، جہاں گندے پانی کی نکاسی کا خاطر خواہ انتظام نہیں ہے، یہ انسانی غلاظت بہہ کر صاف پانی کے سر چشموں کو آلودہ کرتی ہے جس کی وجہ سے ہیضے جیسی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ ہیضے کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر سال پانچ لاکھ بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

امیر ملکوں میں، جہاں گندے پانی کی ٹریٹمنٹ کا نظام موجود ہے، دوسری طرح کے مسائل ہیں۔ یہ نظام ہمیں ہیضے اور اسہال سے تو بچاتے ہیں مگر ایک اور بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ جب خوراک ایک مقام پر اگائی جاتی ہے اور دوسرے مقام پر فضلے کی شکل میں خارج کی جاتی ہے تو اس سے زمین کے اندر موجود غذائی اجزا کا توازن بگڑ جاتا ہے۔

ہماری اجناس، سبزیاں اور پھل زمین سے نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاشیم لیتے ہیں۔ جب ہم انھیں کھاتے ہیں تو ان اجزا کا کچھ حصہ تو ہمارے جسم کا حصہ بن جاتا ہے مگر زیادہ تر فضلے کے ساتھ نکل کر ضائع ہو جاتا ہے۔ دراصل کھاد کے، چاہے قدرتی ہو یا مصنوعی، اندر بھی یہ ہی تینوں اجزا پائے جاتے ہیں۔

ٹریٹمنٹ پلانٹس میں اس گندے پانی کو جراثیم سے تو پاک کر دیا جاتا ہے مگر سوائے چند ایک جدید پلانٹوں کے باقی ہر جگہ یہ اجزا پانی کے ساتھ بہہ کر سمندر میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان ہی اجزا کی وجہ سے سمندروں اور دوسری آبگاہوں میں ایسے پودوں کی افزائش زیادہ ہو جاتی ہے جو ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں۔

سمندری ماحول کی ماہر سٹیفنی ویئر کا کہنا ہے کہ ’دنیا کے 30 فیصد دلدلی علاقے گھروں سے نکلنے والے گندے پانی کی وجہ سے آلودہ ہو چکے ہیں، جبکہ مونگے کی چٹانوں میں بھی مختلف تناسب میں آلودگی پائی جاتی ہے۔‘

عام طور پر انسانی فضلے کے ساتھ جو کیا جاتا ہے وہ اتنا ہی ناگوار ہوتا ہے جتنا کہ فضلہ۔ کبھی تو اسے جلا دیا جاتا ہے۔ کبھی سوکھا کر اسے دوسرے کچرے کے ساتھ بڑے سے گڑھے میں ڈال دیا جاتا ہے جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔ کبھی اسے بڑے بڑے ٹینکوں میں بند کرکے سڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

دوسری جانب ہر سال فصلوں کے ساتھ ہمارے کھیتوں کی زرخیزی کم ہوتی رہتی ہے، لہذا کسانوں کو مصنوعی کھاد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں انسانی فضلے کو کھاد میں تبدیل کرنے کی بجائے ہم اسے پانی میں بہا کر ضائع کر دیتے ہیں۔ ویئر کہتی ہیں کہ ’ہم دراصل ٹائلٹ میں پیسہ بہا رہے ہیں۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کو ایسے طریقے ڈھونڈنے ہوں گے کہ یہ غذائی اجزا پھر سے مٹی میں شامل ہو سکیں۔ ہر کوئی تو کھیت کا مالک نہیں کہ اپنے فضلے سے کھاد بنائے مگر ایسی ٹیکنالوجیاں سامنے آ رہی ہیں جو مددگار ہو سکتی ہے۔

امریکہ میں بعض ادارے چھوٹے پیمانے پر ایسے ٹوائلٹ بنا رہے ہیں جو فضلے کو کھاد میں تبدیل کرتے ہیں۔ میکویلیمز امریکہ کے بہت سے قدیمی باشندوں کو ایسے ٹوائلٹ بنانے میں مدد دے رہے ہیں۔

’میرے کلائنٹ چاہتے ہیں کہ ایسے ٹوائلٹ بنائے جائیں جن سے نہ تو بو آئے نہ ان پر مکھیاں بھنبھنائیں اور نہ ہی ان میں کیمکل استعمال ہوں۔ اور وہ فضلے کو کھاد کی صورت میں زمین کو لوٹانا چاہتے ہیں۔‘ ان کے بنائے ہوئے ٹوائلٹ بھی پیریز کے ٹوائلٹ کے اصول پر کام کرتے ہیں جس میں برادے اور بھوسے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح بو بھی کم آتی ہے اور کھاد بننے کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ لکڑی کی چِھیلن اور برادہ شہروں میں تو نہیں چلے گا۔ مگر سین فرانسسکو کی ایک کمپنی ’ایپِک کلینٹیک‘ اس مقصد کے لیے اپارٹمنٹس میں سمارٹ ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا رہی ہے۔ یہاں گندا پانی نکاسی کے نطام کی بجائے ایپِک کلینٹیک کے سسٹم میں جاتا ہے۔

یہ سسٹم ٹھوس فضلے کو پانی سے الگ کرتا ہے، اور اس پانی کو اتنا صاف کر دیتا ہے کہ اسے پودوں کو دیا جا سکے، ٹوائلٹ فلش کرنے کے لیے استعمال ہو سکے، حتٰی کہ کپڑے دھونے کے بھی کام آ سکے۔ دوسری جانب ٹھوس فضلے کو ڈرموں کے اندر بند کرکے ایک خاص عمل سے گزارا جاتا ہے جس کے بعد وہ کھاد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

اس طرح حاصل ہونے والی کھاد کو کمپنی والوں نے ’ہیومینیور‘ کا نام دیا ہے۔ ایپِک کلینٹیک کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو آرون ٹارٹاکوسکی کہتے ہیں کہ ’اب ہم شہر میں پارکوں کے محکمے سے بات چیت کر رہے ہیں تاکہ اپنی اس ٹیکنالوجی کی آزمائش پارکوں میں کریں۔‘

شہر کی سطح پر کینیڈین کمپنی لائسٹِک نے ایک حل نکالا ہے۔ اس نے ایک بہت بڑا بلینڈر تیار کیا ہے جس کے اندر لگا ہوا بلیڈ سوئیج (گندے پانی) کو تیزی گردش دیتا اور کاٹتا چلا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس میں موجود جراثیم نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتے۔ پھر اس کیچڑ نما مواد کو ٹینکوں میں بھر کر ان کھیتوں میں انجیکٹ کر دیا جاتا ہے جہاں مویشیوں کے لیے چارا اگایا جاتا ہے۔

اس طریقے کے موجد آنٹیریو میں یونیورسٹی آف واٹرلو کے سائنسدان اجے سنگھ کہتے ہیں ’ان ٹینکوں کو ٹرکوں پر لاد کر لے جایا جاتا تھا اور ان میں 98 فیصد پانی ہوتا تھا۔ میں نے یہ طریقہ نکالا کہ سب کچھ کو اچھی طرح سے گھول کر سوئیج سمودی بنا دی جائے۔‘

کمپنی کے مطابق یہ طریقہ کینیڈا، امریکہ اور مڈل ایسٹ کے بہت سے شہروں میں استعمال ہو رہا ہے۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایک اور کمپنی، ڈی سی واٹر‘ شہر بھر کے گندے پانی یا سوئیج کو پراسس کرتی ہے۔ یہ سوئیج کو 148 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم کر کے اور فضائی دباؤ کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ دباؤ ڈال کر اس میں موجود جراثیم کا خاتمہ کر دیتی ہے۔

اس کے بعد اس مواد کو ایسے ٹینکوں کے اندر ڈال دیا جاتا ہے جہاں بیکٹریا اسے کھا کر کیچڑ نما مواد میں بدل دیتے ہیں۔ پھر اسے تین ہفتوں تک سوکھایا جاتا ہے، جس کے بعد یہ کھاد کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے ’بلوم‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس بلوم کو کاشتکار، باغبان اور کھیل کے میدان اور پارک کا انتظام کرنے والے خرید کر لے جا تے ہیں۔

انسانی فضلے سے تیار کردہ کھاد میں زر خیزی پیدا کرنے والے عناصر، نائٹروجن، پوٹاشیم اور فاسفورس تو زیادہ مقدار میں پائے ہی جاتے ہیں، اس کے ساتھ پودوں کو درکار دوسرے اجزا، جیسا کہ میگنیشیم، فولاد، زنک اور سوڈیم بھی پائے جاتے ہیں جو پودوں کو بڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔

قدرتی کھاد یا بایوسولِڈ کے ماہر لائن موس کہتے ہیں کہ ہیومینیور (انسانی کھاد) مٹی کی ساخت کے لیے بھی مفید ہے کیونکہ یہ اسے زرخیز بنانے کے ساتھ کٹاؤ سے بھی روکتی ہے اور نمی کا توازن بھی برقرار رکھتی ہے۔ اس سے زمین نرم رہتی ہے اور اضافی پانی آسانی کے ساتھ گزر جاتا ہے۔

خشک سالی کے دنوں میں اس کی وجہ سے مٹی میں پانی دیر تک موجود رہتا ہے۔ نرمی کی وجہ سے ایسی مٹی میں بیج جلد جڑ پکڑتے ہیں اور تیزی سے نشو و نما پاتے ہیں، اور پھل بھی اچھے لاتے ہیں۔

موس کا کہنا ہے کہ ’امریکہ اور دوسری جگہوں پر بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہماری کاشت کاری کے طریقوں کی وجہ سے زمین میں موجود آرگینک میٹر یا نامیاتی مواد کم ہو گیا ہے۔ بایوسالڈ ڈالنے سے مٹی کے اندر آرگینک میٹر کی مقدار بحال ہو جائے گی جس کے بہت سے فائدے ہیں۔‘

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک طرف تو غذائی اجزا سمندر میں جا کر ضائع نہیں ہوں گے، دوسرے سرکلر ایگریکلچر کی مدد سے زمین کی زر خیزی بڑھے گی، اور آبی اور فضائی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی۔ ان تمام باتوں کے ملکی اور عالمی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ ٹیکنالوجی اتنی ہی فائدہ مند ہے تو تمام بڑے شہریوں کی بلدیہ نے اسے اب تک کیوں نہیں اپنایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سمارٹ ٹیکنالوجیوں کے لیے اس وقت بہت سے شہری اداروں کے پاس فنڈ نہیں ہیں۔ ایک سماجی رکاوٹ لوگوں کا رویہ ہے جو فضلے کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ پھر بقائے ماحول کے بعض ضابطے بھی آڑے آتے ہیں اور ان پر پورا اترنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ توقع ہے کہ وقت کے ساتھ جیسے جیسے ٹیکنالوجی بہتر ہوگی تو یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔

ویئر کہتی ہیں کہ ’میں اسے ریسائکلِنگ (پھر سے قابل استعمال بنانے) کے ایک مکمل نظام کے لیے موقع سمجھتی ہوں۔ آپ غذا کھاتے ہیں، آپ غذا ہی نکالتے ہیں اور پھر آپ اس میں سے کار آمد چیزیں حاصل کر کے انھیں پھر سے خوراک پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس زمین پر ہمارے وسائل لا محدود نہیں ہیں، اس لیے ہمیں انھیں دوبارہ حاصل کرنے کے بعد پھر سے استعمال کرنا پڑے گا۔‘


Source: BBC Urdu



Comments...