Top Rated Posts ....

1500 Megawatt Pak Afghan Joint Hydro Power Project on Kunar River

Posted By: Javed Pracha Lahore, August 26, 2013 | 03:29:25




اسلام آباد: پاکستان اور افغانستان نے اپنے مشترکہ دریاؤں پر باہمی انتظام تحت کنڑ دریا پر 1500 میگاواٹ کے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی صورت میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ یہ دریائے کابل کے معاون دریاؤں میں ایک اہم دریا ہے، جو پاکستان میں سالانہ ایک کروڑ تیس لاکھ ایکڑکے رقبے کو سیراب کرتا ہے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ دونوں فریقین نے اتوار 25 اگست کو ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پیر کو ہونے والے افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے دورے کے موقع پر اگلے دو روز کے دوران تیکنیکی اور سیاسی فورم پر اس حوالے سے غوروخوض کیا جائے گا۔

ایک باضابطہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کے افغان ہم منصب ڈاکٹر حضرت عمر زخیلوال کے درمیان اپنے اپنے معاونین کے ہمراہ دوطرفہ تجارت اور اقتصادی تعلقات میں اضافے کے لیے نئے راستوں کی تلاش پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ باہمی تعاون سے شروع ہونے والے دریائے کنڑ پر 1500 میگا واٹ کے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو دونوں فریقین کابل ریور بیسن مینجمنٹ کمیشن کے تحت آگے بڑھائیں گے۔ یہ ادارہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان قائم انڈس واٹر کمیشن کی طرز پر کام کرے گا۔

ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اس حوالے سے شروعات بہت اچھی رہی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس معاملے کو ڈاکٹر عمر زخیلوال اس کا نہایت مثبت جواب دیا اور ایک بڑے مشترکہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر عنقریب پیش رفت ہوگی۔

موسم سرما میں جب دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ کم ہوجاتا ہے تو پاکستان کی پانی کی ضرورت کا 17 فیصد حصہ دریائے کابل سے پورا ہوتا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے علاقوں میں بہنے والے نو دریامشترک ہیں، جن سے سالانہ ایک کروڑ تراسی لاکھ ایکڑ فٹ پانی حاصل ہوتا ہے۔ اور دریائے کابل کے ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ ایکڑ فٹ پانی میں پاکستان کے دریائے چترال کا حصہ پچاسی لاکھ ایکڑ فٹ پانی ہے۔ افغانستان میں داخل ہونے کے بعد دریائے چترال کو دریائے کنڑ کا نام دیا جاتا ہے، جو دریائے کابل میں جلال آباد کے مقام پر شامل ہوکر دوبارہ پاکستان میں داخل ہوجاتا ہے۔

دریائے کابل کا سالانہ بہاؤ تقریباً21 ارب کیوبک میٹرز ہے۔ دریائے کنڑ جس کا دریائے کابل کے بہاؤ میں 75 فیصد حصہ ہے، کو 60 فیصد سے زیادہ پانی خیبرپختونخوا کے علاقے چترال سے حاصل ہوتا ہے۔

پاکستان کے خدشات کو دور کیے بغیر نئی دہلی کی جانب سے دریائے کابل پر پانی کے ذخائر کی تعداد میں اضافے کے لیے کابل کو دی جانے والی امداد نے اسلام آباد کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے۔ پاکستان نے پہلے اشارہ دیا تھا کہ اپنے حصے کے پانی کو محروم کرنے کی صورت میں وہ دریائے چترال کے راستے کو افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے تبدیل کرسکتا ہے۔

عالمی بینک اور امریکہ نے اسلام آباد اور کابل کی اپنے مشترکہ پانی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے چار سال سے زیادہ عرصے پر مشتمل ایک ادارہ جاتی انتظام کو حوصلہ افزا قرار دیا ہے۔

دراصل عالمی بینک نے 1960ء میں کیے گئے سندھ طاس معاہدے کی طرز پر دونوں پڑوسیوں کو دو طرفہ معاہدے کے تحت پانی کے مشترکہ منصوبے کے لیے مالی اور سروسز کی مدد کی پیشکش کی تھی۔

سرکاری طور پرجاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق دونوں ملکوں کے وزیرخزانہ نے اقتصادی تعاون، تجارت اور دونوں ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ رابطے میں اضافہ کرنے کے مواقع کی تلاش کے علاوہ زبردست اقتصادی امکانات کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں فریقوں نے مواصلات، ریلوے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے اور پاور سیکٹر کے شعبوں میں تعاون پر بات چیت کی۔

وزیر خزنہ اسحاق ڈار نے دنوں ملکوں کے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کے لیے دوہرے ٹیکس کے معاہدے کی ضرورت پر زور دیا۔

افغان وزیر خزانہ نے اس تجویز کو مثبت قرار دیتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ پاکستانی کنسٹرکشن کمپنیاں انفرانسٹرکچر کے وسیع منصوبوں کا تجربہ رکھتی ہیں، جنہیں افغانستان میں کام کرنے کا موقع ملنا چاہئیے، جہاں حکومت نے بڑے مواصلاتی پروجیکٹ شروع کیے ہیں۔

دونوں فریقین نے اکتوبر کےدوران کابل میں مشترکہ اقتصادی کمیشن کے ایک اجلاس کے انعقاد پر رضامندی ظاہر کی، جس میں اس اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد اور دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون میں اضافے کے لیے نئے راستوں کی تلاش کا جائزہ لیا جائے گا۔


Source




Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...