Top Rated Posts ....

Iranian girls who need a certificate of virginity for marriage

Posted By: Faisal , August 13, 2022 | 13:55:34Category: Mix Videos

Iranian girls who need a certificate of virginity for marriage



ایرانی خواتین جنھیں شادی کے لیے کنوار پن کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے

ایران میں شادی سے پہلے کنوار پن بہت سی لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ بعض معامات میں مرد کنوار پن کے سرٹیفکیٹ کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ ایک ایسا عمل جسے عالمی ادارہِ صحت انسانی حقوق کے خلاف سمجھتا ہے لیکن پچھلے ایک سال کے دوران متعدد لوگ اس کے خلاف مہم میں سامنے آئے ہیں۔

’تم نے مجھ سے دھوکے سے شادی کی کیونکہ تم کنواری نہیں ہو اور یہ حقیقت جاننے کے بعد کوئی بھی تم سے شادی نہ کرتا۔ ‘

یہ بات مریم کے شوہر نے پہلی بار جنسی تعلقات قائم کرنے کے بعد ان سے کہی۔

مریم نے انھیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ اگرچہ انھیں خون نہیں آیا لیکن انھوں نے پہلے کبھی کسی سے ہمبستری نہیں کی تھی لیکن انھوں نے مریم پر یقین نہیں کیا، اور انھیں کنوار پن کا سرٹیفکیٹ لینے کو کہا۔

ایران میں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ منگنی کے بعد، بہت سی خواتین ڈاکٹر کے پاس جاتی ہیں اور ایک ٹیسٹ کرواتی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے کبھی جنسی تعلق قائم نہیں کیا۔

تاہم، ڈبلیو ایچ او کے مطابق، کنوارے پن کی جانچ کے لیے کوئی سائنسی قابلیت موجود نہیں ہے۔

مریم کے سرٹیفیکیٹ میں بتایا گیا کہ ان کی ہائمن کی قسم ’لچکدار‘ تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ان میں جنسی تعلق کے بعد خون نہیں بہہ سکتا۔

ان کا کہنا تھا ’اس سے میرے وقار کو ٹھیس پہنچی۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، لیکن میرا شوہر میری توہین کرتا رہا۔‘

’میں مزید برداشت نہیں کر سکتی تھی اس لیے میں نے گولیاں کھا لیں اور خود کشی کی کوشش کی۔‘

انھیں بروقت ہسپتال لے جایا گیا اور وہ بچ گئیں۔

’میں ان تاریک دنوں کو کبھی نہیں بھولوں گی۔ اس دوران میرا 20 کلو وزن کم ہو گیا تھا۔‘

اس عمل کو ختم کرنے کے مطالبات

مریم کی کہانی ایران کی بہت سی خواتین کی حقیقت ہے۔ شادی سے پہلے کنوارہ ہونا اب بھی بہت سی لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ ایک قدر ہے جس کی جڑیں ثقافتی قدامت پرستی تک جاتی ہیں۔
لیکن اب وہاں حالات بدلنا شروع ہو گئے ہیں۔ ملک بھر میں خواتین اور مرد کنوار پن کی جانچ کو ختم کرنے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔

گذشتہ نومبر میں ایک آن لائن پٹیشن پر ایک ماہ میں تقریباً 25,000 دستخط کیے گئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب ایران میں اتنے زیادہ لوگوں کی طرف سے کنوار پن کی جانچ کو کھلے عام چیلنج کیا جا رہا تھا۔

نیڈا کا کہنا تھا کہ ’ یہ ذاتیات کی خلاف ورزی ہے، اور یہ ذلت آمیز ہے۔‘

جب وہ 17 سال کی عمر میں وہ تہران میں زیر تعلیم تھیں تو انھوں نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ کنوار پن کھو دیا۔

میں گھبرا گئی کہ اگر میرے گھر والوں کو پتہ چلا تو کیا ہو گا۔

اس لیے نیڈا نے اپنے ہائمن کی بحالی کا سوچا۔

تکنیکی طور پر، یہ طریقہ کار غیر قانونی نہیں ہے لیکن اس کے خطرناک سماجی اثرات ہیں، اس لیے کوئی بھی ہسپتال اسے کرنے پر راضی نہیں ہوگا۔

چنانچہ نیڈا کو ایک پرائیویٹ کلینک ملا جو اسے خفیہ طور پر کرنے کے لیے راضی ہو گیا لیکن بھاری قیمت ادا کرنے پر۔

وہ کہتی ہیں ’میں نے اپنی ساری جمع پونجی کر دی۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ، اپنا موبائل فون اور اپنے سونے کے زیورات بیچ دیے۔‘

اس کے ساتھ ساتھ انھیں کچھ غلط ہونے کی صورت میں پوری ذمہ داری قبول کرنے کے لیے ایک دستاویز پر دستخط کرنا پڑے۔

اس کے بعد ایک دائی نے یہ عمل کیا جس میں تقریباً 40 منٹ لگے۔

لیکن نیڈا کو صحت یاب ہونے میں کئی ہفتے چاہیے تھے۔

’میں بہت درد میں تھی۔ میں اپنی ٹانگیں ہلا نہیں سکتی تھی۔‘

انھوں نے ساری بات اپنے والدین سے چھپائے رکھی۔

’میں بہت تنہا محسوس کر رہی تھی۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ انھیں پتا چل جانے کے خوف نے مجھے درد کو برداشت کرنے میں مدد کی۔‘

لیکن نیڈا نے جس مقصد کے لیے اتنی آزمائش کو برداشت کیا وہ ناکام رہا۔

ایک سال بعد، ان کی ملاقات ایسے شخص سے ہوئی جو ان سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن جب انھوں نے سیکس کیا تو انیڈا کو خون نہیں نکلا۔ ہائمن کی بحالی کا طریقہ کار ناکام ہو گیا تھا۔

’میرے بوائے فرینڈ نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں نے اس سے دھوکے سے شادی کی۔ اس نے کہا کہ میں جھوٹی ہوں اور اس نے مجھے چھوڑ دیا۔‘

خاندان کی طرف سے دباؤ

ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کنوارے پن کی جانچ کو غیر اخلاقی اور سائنسی معیار نہ رکھنے والا قرار دینے کے باوجود، یہ عمل اب بھی انڈونیشیا، عراق اور ترکی سمیت کئی ممالک میں جاری ہے۔

ایرانی میڈیکل آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ وہ صرف مخصوص حالات میں کنوارے پن کی جانچ کرواتے ہیں، جیسے عدالتی مقدمات اور عصمت دری کے الزامات کے معاملے میں۔

تاہم، کنوارے پن کی تصدیق کے لیے زیادہ تر درخواستیں اب بھی ان جوڑوں کی طرف سے آتی ہیں جو شادی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ پرائیویٹ کلینک کا رخ کرتے ہیں اکثر ان کے ساتھ ان کی مائیں ہوتی ہیں۔

ایک گائناکالوجسٹ یا مڈوائف ٹیسٹ کرواتی ہے اور سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہیں۔ اس میں خاتون کا پورا نام، اس کے والد کا نام، اس کی قومی شناخت اور بعض اوقات اس کی تصویر شامل ہوگی۔ یہ سرٹیفیکیٹ اس کے ہائمین کی حیثیت کو بیان کرتا ہے اور اس میں یہ لکھا جاتا ہے کہ ’یہ لڑکی کنواری پائی گئی۔‘

زیادہ قدامت پسند خاندانوں میں، دستاویز پر دو گواہوں کے دستخط بھی کروائے جاتے ہیں جو عموماً مائیں ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر فریبہ برسوں سے سرٹیفکیٹ جاری کر رہی ہیں۔ وہ تسلیم کرتی ہے کہ یہ ایک توہین آمیز عمل ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ وہ درحقیقت بہت سی خواتین کی مدد کر رہی ہیں۔

’وہ اپنے گھر والوں کی طرف سے اس قدر دباؤ میں ہیں۔ بعض اوقات میں کسی جوڑے کے لیے زبانی طور پر جھوٹ بولتی ہوں۔ اگر وہ ایک ساتھ سوئے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں تو میں ان کے گھر والوں کے سامنے کہوں گی کہ وہ عورت کنواری ہے۔‘

لیکن بہت سے مردوں کے لیے، کنواری سے شادی کرنا اب بھی ضروری ہے۔

شیراز سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ الیکٹریشن علی کہتے ہیں ’اگر کوئی لڑکی شادی سے پہلے اپنا کنوار پن کھو دیتی ہے تو وہ قابل بھروسہ نہیں ہو سکتی۔ وہ اپنے شوہر کو کسی اور مرد کے لیے چھوڑ سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے دس لڑکیوں کے ساتھ سیکس کیا ہے۔ وہ کہتےہیں کہ ’میں خود کو روک نہیں سکا۔‘

علی تسلیم کرتے ہیں کہ ایرانی معاشرے میں دوہرا معیار ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اسے اس روایت کو ختم کرنے کی توجیہ نہیں سمجھتے۔

’سماجی اصولوں کے تحت مردوں کو عورتوں سے زیادہ آزادی حاصل ہے۔‘

علی جیسا نظریہ بہت سے لوگوں کا ہے خاص طور پر ایران کے زیادہ تر دیہی اور قدامت پسند علاقوں میں۔

کنوار پن کی جانچ کے خلاف بڑھتے ہوئے مظاہروں کے باوجود، یہ تصور ایرانی ثقافت کے اندر بہت گہرا ہے، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت اور قانون سازوں کی طرف سے اس پر مکمل پابندی جلد عائد ہوتی نظر نہیں آتی۔

مستقبل سے امید

اپنی جان لینے کی کوشش کرنے اور بدسلوکی کرنے والے شوہر کے ساتھ رہنے کے چار سال بعد، مریم بالآخر عدالت کے ذریعے طلاق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

وہ کہتی ہیں ’ایک مرد پر دوبارہ بھروسہ کرنا بہت مشکل ہو گا۔ میں مستقبل قریب میں شادی نہیں کر پاؤں گی۔‘

دسیوں ہزار دیگر خواتین کے طرح انھوں نے بھی کنوار پن کے سرٹیفکیٹ کے اجرا کو ختم کرنے کے لیے متعدد آن لائن درخواستوں میں سے ایک پر دستخط کیے ہیں۔

اگرچہ انھیں جلد ہی کچھ بدلنے کی توقع نہیں بلکہ شاید ان کی زندگی میں بھی نہیں لیکن انھیں یقین ہے کہ ایک دن خواتین اپنے ہی ملک میں مساوات حاصل کر لیں گی۔

’مجھے یقین ہے کہ یہ ایک دن ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں کسی لڑکی کو اس سے نہیں گزرنا پڑے گا جس سے میں گزری۔‘

( تمام افراد کے نام ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کیے گئے ہیں۔‘


Source: BBC Urdu


Comments...